دورانِ نکاح اپنوں کے بجائے کیا دوست کو گواہ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں؟
ازروئے شرع نکاح صحیح ہونے کے لیے دولہا اور دلہن کی طرف سے علیحدہ علیحدہ دو گواہ ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ عاقدین (جو عموماً دلہن کا وکیل اور خود دولہا ہوتے ہیں) اور قاضی کے علاوہ اگر دو مسلمان مرد یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتیں گواہ ہوں تو نکاح منعقد ہوجاتاہے، اور اگر مسلمانوں کے مجمع میں نکاح ہوجائے اور باقاعدہ کسی کا نام گواہ کے طور پر نہ لکھا جائے تو بھی شرعاً یہ نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ البتہ نکاح نامہ کے مندرجات پر کرتے ہوئے قانونی تقاضا یہ ہے کہ شادی کے دو گواہ نامزد ہوں، یہ گواہ لڑکی کے رشتہ دار بھی ہوسکتے ہیں اور لڑکے کے رشتہ دار بھی ہوسکتے ہیں؛ اور ان کے دوست بھی ہو سکتے ہیں، پس شادی کے گواہ کوئی بھی عاقل بالغ دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہو سکتی ہیں۔
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
"(وَ) شُرِطَ (حُضُورُ) شَاهِدَيْنِ (حُرَّيْنِ) أَوْ حُرٌّ وَحُرَّتَيْنِ (مُكَلَّفَيْنِ سَامِعَيْنِ قَوْلَهُمَا مَعًا) عَلَى الْأَصَحِّ (فَاهِمَيْنِ) أَنَّهُ نِكَاحٌ عَلَى الْمَذْهَبِ بَحْرٌ (مُسْلِمَيْنِ لِنِكَاحِ مُسْلِمَةٍ وَلَوْ فَاسِقَيْنِ أَوْ مَحْدُودَيْنِ فِي قَذْفٍ أَوْ أَعْمَيَيْنِ أَوْ ابْنَيْ الزَّوْجَيْنِ أَوْ ابْنَيْ أَحَدِهِمَا، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ النِّكَاحُ بِهِمَا) بِالِابْنَيْنِ".
تحته في رد المحتار:
"(قَوْلُهُ: وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ النِّكَاحُ بِهِمَا) أَيْ بِالِابْنَيْنِ أَيْ بِشَهَادَتِهَا، فَقَوْلُهُ: بِالِابْنَيْنِ بَدَلٌ مِنْ الضَّمِيرِ الْمَجْرُورِ، وَفِي نُسْخَةٍ لَهُمَا أَيْ لِلزَّوْجَيْنِ، وَقَدْ أَشَارَ إلَى مَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ الْفَرْقِ بَيْنَ حُكْمِ الِانْعِقَادِ، وَحُكْمِ الْإِظْهَارِ أَيْ يَنْعَقِدُ النِّكَاحُ بِشَهَادَتِهِمَا، وَإِنْ لَمْ يَثْبُتْ بِهَا عِنْدَ التَّجَاحُدِ وَلَيْسَ هَذَا خَاصًّا بِالِابْنَيْنِ كَمَا قَدَّمْنَاهُ".
(الشامية، كِتَابُ النِّكَاحِ، ٣ / ٢١ - ٢٤، ط: دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144203201278
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن