ہمارا ایک دوست ہے، جو نوکری کرتا ہے اور ماہانہ تنخواہ پہ گزارا کرتا ہے، آج کل اپنا گھر بنوارہا ہے، اپنی ذاتی رہائش بھی اس کی نہیں ہے اور تنخواہ اس کی کھانے اور رہائش کے علاوہ ساری مکان پہ لگا دیتا ہے، کام کبھی رک جاتا ہے جب پیسے آتے ہیں تو تھوڑا آگے بڑھ جاتا ہے، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کیا زکوۃ کی رقم سے اس کی مدد کی جا سکتی ہے ؟ اور اگر کی جا سکتی ہے تو کیا اسے بتانا پڑے گا کہ یہ زکوۃ کی رقم ہے یا بغیر بتاۓ مدد کر سکتے ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے مذکورہ دوست کے پاس ضرورت اور استعمال سے زائد نصاب کی بقدر مال نہ ہو اور وہ سید / ہاشمی نہ ہو تو اسےزکاۃ دی جا سکتی ہے، اور اگر اس کے پاس ضرورت اور استعمال سے زائد نصاب کی بقدر مال ہو یا وہ سید / ہاشمی ہو تو اس کے لیے زکاۃ کی رقم لینا جائز نہیں، زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ ادا نہ ہوگی۔
نصاب کی تفصیل یہ ہےکہ کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی، یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی یا سامانِ تجارت ہو ، یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو۔
نیز زکاۃ دیتے وقت یہ صراحت کرنا ضروری نہیں کہ یہ زکاۃ کی رقم ہے، بلکہ صرف دل میں ارادہ کرلینا کافی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وَفِي كُلِّ عِشْرِينَ مِثْقَالِ ذَهَبٍ نِصْفُ مِثْقَالٍ مَضْرُوبًا كَانَ أَوْ لَمْ يَكُنْ مَصُوغًا أَوْ غَيْرَ مَصُوغٍ حُلِيًّا كَانَ لِلرِّجَالِ أَوْ لِلنِّسَاءِ تِبْرًا كَانَ أَوْ سَبِيكَةً كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ. وَيُعْتَبَرُ فِيهِمَا أَنْ يَكُونَ الْمُؤَدَّى قَدْرَ الْوَاجِبِ وَزْنًا، وَلَا يُعْتَبَرُ فِيهِ الْقِيمَةُ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى."
(الفتاویٰ الهندیة، کتاب الزکاۃ، الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض وفيه فصلان،الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة، 179,178/1،ط : رشیدیة)
ہندیہ میں ہے:
"ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية".
(الفتاوى الهندية،كتاب الزكاة ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،1/ 171 الناشر: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144307102069
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن