بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے نکاح کے لیے پہلی بیوی سے اجازت/غیر مقلدین کے ساتھ نکاح


سوال

1.اگر کوئی شخص دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے تو کیا عورت سے اجازت لینا ضروری ہے اور اگر اجازت لیے بغیر نکاح کیا تو کیا نکاح باقی رہے گا یا ٹوٹ جائے گا۔

 2.اور ایک مسٔلہ یہ ہے کہ غیر مقلدین کے گھر اپنی بچی کا نکاح کرنا کیسا ہے؟

جواب

1.شریعت نے مرد کو ایک وقت میں چارعورتوں کو نکاح میں رکھنے کی اجازت دی ہے ، اوردوسرا نکاح کرنے کے لیے پہلی بیوی کی اجازت شرعا ضروری نہیں ہے،البتہ   دوسرا نکاح کرنے کی صورت میں  دونوں بیویوں کےحقوق کی صلاحیت اور ان کے درمیان رہن سہن، نان و نفقہ اور  رات گزارنے میں عدل و انصاف اور برابری ضروری  ہے، کسی ایک بیوی کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنا شرعاً ناجائز ہے ، احادیث میں اس کی بہت سخت وعید آئی ہے۔

پہلی بیوی کی اجازت جب شرعا ضروری نہیں تو پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر بھی شرعی اعتبار سے دوسرا نکاح ہوجاتا ہے،اور اگر پہلی بیوی کو طلاق نہیں دی تو پہلا نکاح بھی برقرار رہے گا۔

2.باقی مقلدین وغیر مقلدین میں بہت سے اصولی وفروعی اختلافات ہیں،یہ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معیار حق نہیں مانتے،ائمہ اربعہ پرسب وشتم کرتے ہیں اور ان کی تقلید کو جس کے وجوب پر امت کا اجماع ہوچکاہے ناجائز اور بدعت بلکہ بعض تو شرک تک کہہ دیتے ہیں،اسی طرح بہت سے اجماعی مسائل کے منکر ہیں،ایک مجلس کی تین طلاق کا وقوع جس پر صحابہ وجمہور علماء کا اجماع ہوچکا ہے ،انکار کرتے ہیں اور ایک طلاق کا فتوی دے کر زناکاری وبدکاری میں مبتلا کرتے ہیں،لہذا غیر مقلد سے  حنفی مسلک کی لڑکی کا نکاح اگرچہ جائز ہے،لیکن ان چیزوں کے ہوتے ہوئے ان کے  ساتھ نکاحی تعلق قائم کرنا کیسے گوارہ ہوسکتا ہے،یہ فتنہ وفساد کا باعث ہے،لڑکی مرد کے ماتحت ہوتی ہے اس لیے اس کے عقائد واعمال یقیناً خراب ہوں گے،لہذامصلحتاً ایسی جگہ اپنی بیٹی کا رشتہ نہ کیا جائے۔(کما فی فتاوی رحیمیہ،محرمات کا بیان،ج8،ص205،ط؛دار الاشاعت)

حدیث مبارکہ میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل." 

(سنن أبی داؤد،باب فی القسم بین النساء،ج3،ص469،ط؛دار الرسالۃ العالمیۃ)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین  میں ہے:

"(و) صح (نكاح أربع من الحرائر والإماء فقط للحر) لا أكثر."

(فصل فی المحرمات،ج3،ص48،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101837

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں