بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے کے مال میں تصرف کرنے کا حکم


سوال

 ایک بندے نے دو شادیاں کی تھی ،اس شخص کا انتقال ہوجاتاہے ، اس کی  پینشن بک دونوں بیواؤں پر تقسیم ہوئیں، دونوں بیواؤں کی تنخواہ علیحدہ علیحدہ ہوئیں، اور اب بڑی بیوہ فوت ہوگئی ہے اور چھوٹی بیوہ نے دوسری جگہ شادی کرلی ہے،بڑی بیوہ سے ان کو تین غیرشادی  شدہ بیٹییاں ہیں اور چھوٹی بیوہ سے ان کو ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے نابالغ ،ہم چاہتے ہیں کہ بڑی بیوہ کا حصہ اس کے غیر شادی شدہ بیٹیوں کو ملے اور چھوٹی بیوہ کا حصہ اس نابالغ لڑکی اور لڑکے کو ملے، اس میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کا ترکہ مرحوم کے تمام ورثاء میں شریعت کے مقرر کردہ طریقہ کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے، اور یہ تقسیم کسی کی چاہت یا مرضی پر موقوف نہیں ہوتی،نیز  شریعتِ نے ہر ایک وارث کا حق وحصہ متعین کردیا گیا ہے،جس کے مطابق ہر وارث کو اس کا حصہ دینا ضروری ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے انتقال کے بعد ان کی پینشن بک دونوں بیواؤں پر تقسیم ہوئیں تو ہر ایک اپنے حصے کی رقم کی مالک تھیں، اب جب کہ ایک بیوہ کا انتقال ہوگیا ہے، تو اس کا ترکہ ان کےورثاء میں شرعی حصوں کے بقدر تقسیم کیا جائےگا،مرحومہ کی بیٹیوں کا حصہ دینے کے بعد بقیہ ترکہ مرحومہ کے عصبہ کو دیاجائےگا،چوں کہ سوال میں ورثاء کی پوری تفصیل ذکر نہیں کی گئی ہے، اس لیے تمام ورثاء کی تفصیل دینےکے بعد دوبارہ دارالافتاء سے رجوع کریں۔

جب کہ دوسری بیوہ حیات ہے تو ا ن کے حصے کی پینشن کی رقم کی اصل مالک وہی ہے، ان کی اجازت ورضامندی کے بغیر ان کے بچوں میں مذکورہ رقم کو تقسیم کرنا جائز نہیں ۔

قرآن مجید میں ہے:

" اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا  ۭ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ  ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِـيما۔"(النساء:11)

ترجمہ:"تمہارے اصول و فروع جو ہیں تم پورے طور پر یہ نہیں جان سکتے ہو کہ ان میں کونسا شخص تم کو نفع پہنچانے میں نزدیک تر ہے۔ یہ حکم منجانب اللہ مقرر کردیا گیا بالیقین اللہ تعالیٰ بڑے علم اور حکمت والے ہیں۔"(بیان القرآن)

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"لايجوز لاحد ان يتصرف في ملك غيره بلا اذنه او وكالةاو ولايةوان فعل كا ضامنا."

(ج:1، ص:61، الرقم:96،ط :حبیبیہ کوئٹہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں