1-رشتے دار بچے کا عقیقہ کر سکتے ہیں؟ جیسا کہ خالہ اپنے بھانجے کا؟
2- بڑے جانور میں سے اجتماعی عقیقہ ہوسکتا ہے؟
1- عقیقہ کا انتظام کرنے کا اصل ذمہ دار تو بچے کا والد ہے، لیکن اگر بچے کا کوئی رشتہ دار خالہ وغیرہ اس کا عقیقہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اس میں بھی کوئی حرج نہیں،جیساکہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں (حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما) کی طرف سے خود عقیقہ فرمایا، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نانا تھے۔
ہاں اگر بچے کا والد اس پر راضی نہ ہو، بلکہ خود ہی اپنے بچے کے عقیقے کا انتظام کرنا چاہتاہو تو وہ ہی اس کازیادہ حق دار ہے۔
2-بڑے جانور میں اجتماعی عقیقہ کرسکتے ہیں ، لڑکےکے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ رکھاجائے ، بڑے جانور میں سات حصوں سے زیادہ نہیں کر سکتے۔
اعلاء السنن میں ہے:
"قال رسول اللّٰہ : من ولد له غلام فلیعق عنه عن الابل أو البقر أو الغنم".
(باب العقیقۃ ، ج:17، ص:128، ط : بیروت)
اعلاء السنن میں ہے:
"يصنع بالعقيقة ما يصنع بالأضحى."
(باب العقیقۃ ، ج:17، ص:117، ط : بیروت)
اعلاء السنن میں ہے:
"عن عائشة - رضي اللّٰه عنها - قالت : ’’ عقّ رسول اللّٰه ﷺ عن الحسن والحسین یوم السّابع... الخ".
(باب العقیقۃ ، ج:17، ص:115،تحت رقم :5513 ، ط : بیروت)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (الملا على القاري) میں ہے:
"4155 - وعن ابن عباس رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «عق عن الحسن والحسين رضي الله عنهما كبشا كبشا» . رواه أبو داود، وعند النسائي: كبشين كبشين."
(باب العقيقة،ج:7، ص:2690، ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (الكاساني)میں ہے
'' ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء".
(كتاب التضحية، فصل في محل إقامة الواجب في الأضحية، ج:5، ص:70، ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504101725
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن