بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے دن قربانی کرنا


سوال

کیا پہلے دن کو چھوڑ کر دوسرے دن قربانی کی جا سکتی ہے ؟ 

جواب

قربانی کا ابتدائی  وقت ذوالحجہ کی دس تاریخ کو عید کی نماز کے بعد  شروع ہوتا ہے ،شہر اور بڑے قصبوں میں رہنے والوں کے لیے اس شہر میں کسی بھی جگہ عید الاضحی کی نماز ہونے سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنا درست نہیں ہےاور  جہاں عید کی نماز پڑھنا درست نہ ہو  (یعنی  دیہات اور گاؤں میں) وہاں لوگ صبح صادق کے بعد فجر کی نماز سے پہلے بھی قربانی کا جانور ذبح کرسکتے ہیں ۔

قربانی کا یہ وقت عید کی نماز کے بعد سے لے کر  بارہ تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے تک ہوتا  ہے،ان تین ایام میں سے جس دن بھی آدمی چاہے بلاکراہت قربانی کرسکتا ہے، قربانی کے فریضہ کی ادائیگی میں  کوئی فرق نہیں آتا۔ البتہ  ثواب کے اعتبار سے پہلے دن قربانی کرنا زیادہ افضل ہے، پھر دوسرے دن اور پھر تیسرے دن۔

فتاوی شامی میں ہے:  

"(وأول وقتها) (بعد الصلاة إن ذبح في مصر) أي بعد أسبق صلاة عيد، ولو قبل الخطبة لكن بعدها أحب وبعد مضي وقتها لو لم يصلوا لعذر، ويجوز في الغد وبعده قبل الصلاة لأن الصلاة في الغد تقع قضاء لا أداء زيلعي وغيره (وبعد طلوع فجر يوم النحر إن ذبح في غيره).

 (قوله: إن ذبح في غيره) أي غير المصر شامل لأهل البوادي، وقد قال قاضي خان: فأما أهل السواد والقرى والرباطات عندنا يجوز لهم التضحية بعد طلوع الفجر، وأما أهل البوادي لايضحون إلا بعد صلاة أقرب الأئمة إليهم اهـ وعزاه القهستاني إلى النظم وغيره، وذكر في الشرنبلالية أنه مخالف لما في التبيين ولإطلاق شيخ الإسلام". (6 / 318)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (8 / 200):

"ووقتها ثلاثة أيام أولها أفضلها ويجوز الذبح في لياليها إلا أنه يكره لاحتمال الغلط في الظلمة  وأيام النحر ثلاثة ۔"

المبسوط للسرخسي ـ(12 / 15):

"ثم يختص جواز الأداء بأيام النحر وهي ثلاثة أيام عندنا قال عليه الصلاة والسلام: "أيام النحر ثلاثة أفضلها أولها فإذا غربت الشمس من اليوم الثالث لم تجز التضحية بعد ذلك".

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (5 / 662):

"قال علي: يصح النحر ثلاثة أيام، أفضلها أولها".

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 316):

" قوله ( أفضلها أولها ) ثم الثاني ثم الثالث كما في القهستاني عن السراجية "۔

 فتح القدير لكمال بن الهمام - (22 / 94):

"قال: ( وهي جائزة في ثلاثة أيام : يوم النحر ويومان بعده ) وقال الشافعي : ثلاثة أيام بعده لقوله عليه الصلاة والسلام { أيام التشريق كلها أيام ذبح } ولنا ما روي عن عمر وعلي وابن عباس رضي الله عنهم أنهم قالوا : أيام النحر ثلاثة أفضلها أولها وقد قالوه سماعا لأن الرأي لا يهتدي إلى المقادير ، وفي الأخبار تعارض فأخذنا بالمتيقن وهو الأقل ، وأفضلها أولها كما قالوا ولأن فيه مسارعة إلى أداء القربة وهو الأصل إلا لمعارض".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں