بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسروں کی زمین پر قبضہ کرنا


سوال

 دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنا اور اس سے روزی کمانا کیسا ہے؟ جب کہ نہ اصل کاغذات ہے،جب کہ نقلی کاغذات بنا کر حقیقی مالکان پر کیس کیا تھا،لیکن دو دفعہ ادنی عدالت سے لے کر اعلی عدالت میں کیس ہار چکے ہیں، مذکورہ حالت میں ازالہ کی کیا صورت ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ کسی دوسرے  شخص کی ملکیتی  زمین پر قبضہ کرنا شرعاً ناجائز اور حرام  ہے، حدیث مبارکہ میں اس پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایک بالشت برابر زمین بھی ظلماً لی (یعنی غصب کی)، قیامت کے دن اُسے سات زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا،مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ ’’ليس لعرق ظالم حق‘‘جس کی تشریح میں شارحینؒ نے لکھاہے کہ جو کسی غیر کی زمین چھین کر اس میں کوئی درخت یا کھیت لگاتاہے اس کاکوئی حق نہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں کسی دوسرے شخص کی زمین پر قبضہ کرنا اورپھر اس سے کچھ کماناجائز نہیں ،ایسے شخص کو پہلے اچھے طریقے سے سمجھادینا چاہیے، اگر پھر بھی وہ ظلم اور زیادتی سے نہیں رکتا، تو اس کو روکنے کےلیے  قانونی کاروائی کی جائے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح،باب الغصب والعاریة،ج:1،ص254، ط: قدیمی)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(کتاب الغصب ،مطلب فیما یجوز من التصرف  بمال الغیر بدون اذن صریح،  ج:6، ص:200، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401102042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں