بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری لے جا سے طلاق کا حکم


سوال

میری  اپنی بیوی کے ساتھ  بحث ہوئی،جسکے بعد اسکی والدہ اور خالہ  گھر  آکر اسے لے جانے لگے ،تو اسکے بعد  میں نے اسے روکنے کے لیے  یہ جملہ کہا "میں ان دونوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر تم نے گھر سے باہر ایک قدم بھی رکھا تو میری طرف سے پہلی طلاق۔" جس پر وہ نہ رکی اور چلی گئی۔ میں نے جب دوبارہ کال کی تو اس نے کہا آپ نے دو مرتبہ طلاق دی ہے ۔جب آپ کمرے میں  تھے اور میں گیٰٹ  سے باہر، تو  میں نے سنا کہ آپ نے کہا "جا رہی ہو تو دوسری لے جاؤ"۔ جبکہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔میرے والد  بھی کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے صرف یہ سنا ہےکہ اگر  گھر سے باہر ایک قدم بھی رکھا تو  طلاق۔میں نے اپنی بیوی سے میسیج پر بات کرتے ہوئے تین دفعہ کہا کہ  میں نےرجوع کیا۔ اب مندرجہ سوالوں کے بارے  میں راہنمائی فرمائیں

1۔ ددسری  طلا ق واقع ہوئی یا نہیں؟،2۔ ایامِ حیض میں طلاق  کاکیا حکم ہے؟،  3۔میسیج پر رجوع کرنے سے  رجوع ہوجاتا ہےیا نہیں؟

جواب

1۔ صورت مسئولہ  میں سائل کے یہ الفاظ"اگر تم نے گھر سے باہر ایک قدم بھی رکھا تو میری طرف سے پہلی طلاق"طلاقِ معلق کے تھے لہذا  اس کے بعد جب بیوی نہیں رکی اور چلی گئی،تو پہلا قدم باہر نکلتے ہی اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی۔اوربقول بیوی کے شوہر نے یہ الفاظ"جارہی ہو تو  دوسری لے جاؤ" کہے ہیں، تو ان الفاظ سے دوسری طلاق رجعی بھی واقع ہوگئی تھی ،البتہ  شوہر ان الفاظ کے  کہنے کا انکار کر رہا ہے  اور بیوی کا دعویٰ یہ ہے کہ شوہر (سائل) نے یہ الفاظ کہتے ہیں تو ایسے اختلاف کی صورت میں میاں بیوی پر لازم ہے کہ کسی مستند عالمِ دین یا مفتی صاحب کے پاس  جا کر اسے اپنے اس مسئلہ میں فیصل مقرر کرلیں،پھروہ میاں بیوی دونوں کے موقف کا جائزہ لے  کر حسب ضابطہ شرعی جو فیصلہ دیں ،اس کے مطابق عمل کریں۔

2۔حالتِ حیض طلاق دینے سے بھی شرعاً طلاق واقع ہوجاتی ہے،البتہ حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہ تحریمی اور  ناجائزہے،فقہ  حنفی میں اس کو طلاق بدعی کہا جاتا ہے،یعنی وہ طلاق جو سنت کے خلاف ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے۔

3۔میسیج میں"میں نے رجوع کیا" لکھ کر بھیجنے سے بھی رجوع ہوجاتا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق،الباب الرابع فی الطلاق بالشرط،ج:1،ص:457،دارالکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد و لايصح فيما لايملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة."

(الباب الرابع و العشرون فی التحکیم،ج:3،ص:373،ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(والبدعي) من حيث الوقت أن يطلق المدخول بها وهي من ذوات الأقراء في حالة الحيض أو في طهر جامعها فيه وكان الطلاق واقعا ويستحب له أن يراجعها والأصح أن الرجعة واجبة هكذا في الكافي."

(کتاب الطلاق،الباب الاول فی تفسیرہ ورکنہ ،ج:1،ص:383،ط:دار الکتب العلمیة)  

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

(باب الرجعة،ج:3،ص:397،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں