بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کرنا اور نکاح کے بعد منکوحہ سے ملنا


سوال

 میں شادی شدہ ہو الحمدللہ دوسری شادی کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے آمدنی کم ہے گھر کے 6 افراد کی ذمہ داری مجھ پر ہے اس صورت میں ایسا کیا کیا جائے جو نکاح آسان ہو جائے میرے لیے، آیا نکاح کر کے لڑکی کو کچھ عرصے کے لیے اس کے باپ کے گھر رکھنا کیسا ہے؟ صرف گھر کے بندوبست تک اور رخصتی سے پہلے ملنا جلنا کس حد تک ٹھیک ہے ؟جبکہ لڑکی جوائنٹ فیملی میں رہنے کو بھی راضی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ دوسری شادی اس  کے لیے جائز ہے جو جسمانی اور مالی اعتبار سے دونوں کے حقوق اداکرنے کی طاقت رکھتا ہو اور دونوں بیویوں کے درمیان عدل وانصاف اور برابری کرنے کی اہلیت رکھتاہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔

"سنن ابی داود"  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل" ( سنن أبي داؤد 3 / 469)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی.

مذکورہ بالا تفصیل کے پیش نظر  اگر آپ دوسری شادی کے لیے  مالی طاقت  نہیں رکھتے ہیں اور دوسری شادی کرنے کے  بعد دونوں بیویوں کے حقوق خوش اسلوبی سے برابری کے ساتھ ادا نہیں کرسکتے ہیں تو آپ کے لیے دوسری شادی جائز نہیں  ہے،اگر مذکورہ شرائط کے مطابق دوسری شادی کی طاقت رکھتے ہیں تو پھر سائل کے لیے دوسری شادی جائز ہے۔

دوئم یہ  کہ  نکاح ہوجانے کے  بعد اپنی منکوحہ کی رضامندی  سے ملنا، اس سے باتیں کرنا اور اس سے صحبت کرنا شرعاً جائز ہے،  البتہ باقاعدہ رخصتی سے پہلے تنہائی میں ملنا اورفطری خواہش پوری کرنا عرف و معاشرے میں معیوب سمجھاجاتاہے، بسااوقات یہ بڑے فساد کاذریعہ بن جاتاہے،لہذا جہاں ایسا ماحول ہو وہاں اجتناب ہی مناسب ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) عند الفقهاء (عقد يفيد ملك المتعة) أي حل استمتاع الرجل من امرأة لم يمنع من نكاحها مانع شرعي".

(کتاب النکاح،ج:3،ص:3،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100755

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں