بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی سے تعلق نہ رکھنا


سوال

ایک عورت ہے،  اٹھار سال اس کی شادی کوہوچکے  ہیں،   سات سال پہلے شوہر نے دوسری شادی کی، دوسری شادی  کی وجہ یہ بتائی  کہ میری صرف لڑکیاں ہیں لڑکا نہیں ہے،  لیکن دوسری شادی کے بعد پہلی والی بیوی سے کوئی تعلق نہیں رکھا ، صرف گھر کا خرچہ دیتا ہے،  لڑکی نے تعلقات ٹھیک کرنے کے لیے بہت کوشش کی،  لیکن  کچھ ٹھیک نہیں ہوا اور طلاق بھی نہیں دیتا ، لڑکا کسی کی بات  ماننے کے لیے تیار نہیں  ہے۔ اسلام میں اس لڑکی کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کے شوہر پر اپنی دونوں بیویوں کے درمیان، نان ونفقہ ، لباس اور شب باشی  میں برابری کرنا  ضروری ہے،کسی ایک بیوی کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنا شرعاً ناجائز ہے اور احادیث میں اس پر بہت سخت وعید آئی ہے،لہذا شوہر پر لازم ہے کہ بیویوں کے درمیان مساوات کا خیال رکھے اور پہلی بیوی کے حقوق ادا کرے ،اگر شوہر کے  لیے حقوق کی ادائیگی ممکن نہ ہو تو سلیقے سے اس رشتہ کو ختم کردے ،بیوی کو چاہیے کو حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کرے ،اگر وہ آمادہ نہ ہو تو خاندان کے  معزز لوگوں کے سامنے یا محلے کی پنچایت کے سامنے اس معاملہ کو رکھے، اور ان کے تعاون سے اس مسئلہ کا حل نکالا جائے پھر بھی  اگر شوہراپنے رویہ میں  تبدیلی نہیں لائے تو سائلہ  اپنے  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے ، اور اگر وہ طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو  اسے راضی کر کے اس سےخلع حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰىأَلَّا تَعُوْلُوْا﴾."(النساء:3)

"ترجمہ:اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے."( بیان القرآن )

حدیث مبارکہ میں ہے۔

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل." 

(سنن أبي داؤد،باب في القسم بين النساء،ج 3 ،ص 469،دار الرسالة العالمیة)

"ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔"

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.

(قوله وظاهر الآية أنه فرض) فإن قوله تعالى {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} [النساء: 3] أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور. (قوله وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع."

(کتاب النکاح ،باب القسم بین الزوجات،ج3،ص202،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے۔

"(ولا بأس به عند الحاجة) للشقاق بعدم الوفاق

(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية، وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب."

( فتاوی شامی ،باب الخلع،ج3،ص441،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں