بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت ضروری ہے؟


سوال

 ایک شخص دوسری شادی کرنا چاہتا ہے،  لیکن اس کی پہلی بیوی راضی نہیں،  کیا دوسری شادی کے  لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟

جواب

شریعت نے مرد کو ایک وقت میں چار عورتیں اپنے نکاح میں رکھنے کی اجازت دی ہے، لیکن  ساتھ  میں اسے اس کا پابند بھی کردیا  کہ وہ اپنی تمام بیویوں میں برابری کا برتاؤ کرے ، نان نفقہ میں امتیازی سلوک نہ برتے، اگر کوئی شخص متعدد بیویاں رکھ کر ان میں برابری نہ کرے، امتیازی سلوک روا رکھے تو اس کے  لیے یہ سزا مقرر کردی کہ قیامت کے دن اس کا آدھا جسم مفلوج ہوگا۔   

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد شادیاں فرمائی ہیں اور صحابۂ کرام میں بھی متعدد شادیوں کا رواج تھا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام نے ہر نیا نکاح کرتے وقت پہلے سے نکاح میں موجود بیویوں  سے اجازت لے کر نیا نکاح کیا ہو، ایسی کوئی بات ثابت نہیں،  جس سے واضح ہوتا ہے کہ دوسری شادی کے  لیے پہلی بیوی کی اجازت شرعًا ضروری نہیں۔ 

ارشاد خداوندی ہے:

{فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلاَّ تَعُولُوْا} [النساء۔ الآیة:3]

سنن الترمذى  (4 / 467):

"عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: « إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط »."

(ابواب النکاح،باب ما جاء فى التسوية بين الضرائر)

الدر المختار شرح تنوير الأبصار (3 / 48):

"( و ) صح ( نكاح أربع من الحرائر والإماء فقط للحر ) لا أكثر ( وله التسري بما شاء من الإماء ) فلو له أربع وألف سرية وأراد شراء أخرى فلامه رجل خيف عليه الكفر ولو أراد فقالت امرأته أقتل نفسي لايمتنع؛ لأنه مشروع لكن لو ترك لئلايغمها يؤجر لحديث من رق لأمتي رق لله له، بزازية." (کتاب النکاح،ط:سعید)

الفتاوى الهندية  (۱ /۳۴۱):

"وإذا كانت له امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى وخاف أن لايعدل بينهما لايسعه ذلك وإن كان لايخاف وسعه ذلك والامتناع أولى ويؤجر بترك إدخال الغم عليها، كذا في السراجية."

(کتاب النکاح،الباب الحادی عشر فی القسم،ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں