بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کی وجہ سے پہلی بیوی کاشوہر کے حقوق میں کوتاہی کرنا


سوال

دوسری شادی کے بعد ایک گھر میں رہتے ہوئے پہلی بیوی کی ناراضگی ، مشورہ نہ کرنا ،جوان بچوں کوباپ سے متنفر کرنا،لوگوں کے سامنے بدنام کرنا،بیروزگار کہنا جبکہ انتیس سال سے ماہانہ خرچ دیتا ہوں۔بچوں کی شادی کے معاملات میں مشورہ نہ کرنا،عید رمضان کا سلام نہ کرنا،ہمبستری ترک کرنا،پردہ شوہر سے کرنا،دکھ بیماری میں لاتعلق رہنا،یہ تمام کام کر رہی ہے اس عورت کو آپ کا فتویٰ دکھانا ہے،کیا کیا جائے ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نےمیاں بیوی کی ایک دوسرے پر حقوق  مقررکیے ہے،جن کی ادائیگی جانبین کے ذمہ لازم ہے،بیوی پر شوہر کی اطاعت اور اس کے   جائز مطالبات ماننا لازم ہے ورنہ گناہ گار ہوگی، میاں بیوی کے رشتے میں شریعت نے شوہر کو بڑا درجہ اور اہمیت دی ہے،  چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘  اسی  طرح شریعت نے شوہر کو بھی پابند کیا ہے،کہ وہ عورت کی ضروریات کا خیال رکھے،اس کے رہائش،نان نفقہ، اپنے دستور کے مطابق ادا کرے،بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو افضل صدقہ کہا گیا ہے،لہذا میاں بیوی دونوں کوایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئےایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

 صورتِ مسئولہ میں سائل کی  بیوی  اگر بلا عذر شوہر (سائل) سے بات نہیں کر رہی اور نہ اس کا مزید کوئی  حق ادا کر رہی ہے،بچوں کو متنفر کررہی ہے ،تو شدید گناہ کی  مرتکب ہو رہی ہے،اور اگر یہ ناراضی  کسی سبب کے باعث ہے،اور بیوی کا کوئی مطالبہ ہو،تو سائل غور کرے،اگر وہ مطالبہ شرعاً جائز ہو اور شوہر پورا کر سکتا ہو،تووہ پوراکر کے بیوی کو راضی کرنے کی کوشش کرے،لیکن اگر وہ بغیر کسی وجہ  تعلقات قائم نہیں رکھنا چاہتی،تو سائل کو  چاہیے  کہ  پہلے خود اسے سمجھائے،  اور   اگر  پھر بھی نہیں سمجھ رہی تو خاندان کے بڑے بزرگ افراد کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرے ۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت. رواه أبونعيم في الحلية. ‌‌

وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد، لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها. رواه الترمذي.

وعن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة. رواه الترمذي".

(‌‌كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ج:2، ص:971،972، ط: المكتب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها، وجوب طاعة الزوج على الزوجة إذا دعاها إلى الفراش؛ لقوله تعالى: {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] قيل: لها المهر والنفقة، وعليها أن تطيعه في نفسها، وتحفظ غيبته؛ ولأن الله عز وجل أمر بتأديبهن بالهجر والضرب عند عدم طاعتهن، ونهى عن طاعتهن بقوله عز وجل: {فإن أطعنكم فلاتبغوا عليهن سبيلاً} [النساء: 34]، فدل أن التأديب كان لترك الطاعة، فيدل على لزوم طاعتهن الأزواج".

 (كتاب النكاح، فصل المعاشرة بالمعروف، ج:2، ص:334، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں