بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری مرتبہ کمیشن ایجنٹ کے واسطے کے بغیر بائع اور مشتری کا معاملہ کرنے کے بعد بائع کا ایجنٹ کو خود سے رقم دینے کا حکم


سوال

 زید (کلائنٹ) نے بکر (انجینئر) سے ایک موبائل ایپ بنانے کے لیے رابطہ کیا، بکر بولا  کہ میں موبائل ایپ بنادوں گا، بعد میں کام زیادہ ہوگیا تو بکر نے علی کی کمپنی سے رابطہ کیا کہ آدھا کام تم کرنا اور آدھا کام میں اور پیسے آدھے آدھے کرلیں گے۔۔۔ اور اس بات کا زید (کلائنٹ) کو بتادیا کہ ہم (میں اور علی کی کمپنی)مل کر کام کریں گے،بعد میں علی نے کہا کہ سارا کام ہم یعنی ہماری کمپنی کرے گی ورنہ کام خراب ہوگا۔ اور آپ کو کلائنٹ لانے کی وجہ سے جو بھی بل بنے گا اس کا 10 فیصد آپ کو دیں گے اور آپ کا کام کلائنٹ کے ساتھ کوارڈینیشن کا ہوگا۔ بکر یہ بات مان گیا۔۔ بکر نے کلائنٹ کے ساتھ کوارڈینیشن کرا،اور علی کی کمپنی نے کام کیا اور بکر کو  کام کے بعد10 فیصد  رقم مل گئی۔

اب سوال یہ ہیں کہ:

 کیا یہ پیسے بکر کے لیے جائز ہیں؟

۲- اب اُس موبائل ایپ میں کوئی بھی کام آتا ہے تو زید، علی سے خود ڈائرکٹ رابطہ کرکے کام کرتا ہے اور بکر کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔۔ لیکن علی پھر بھی خود سے 10 فیصد پیسے بکر کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیتا ہے،کیوں کہ علی کو یہ کلائنٹ بکر نے لاکر دیا تھا۔ تو یہ پیسے بکر کے لیے جائز ہیں؟

جواب

2،1۔ صورتِ مسئولہ  میں بکر کی حیثیت کمیشن ایجنٹ کی ہے اور کمیشن لیناشریعت میں حلال ہے،البتہ کمیشن (اجرت )منفعت یا عمل کے بدلے میں ہوتی ہے، جب کہ بعد میں زید نے علی سے خود کام کروایا تو اس میں بکر کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، لہذابکر کے لیےاس کے کام  کی کمیشن (اجرت) لینا جائز نہیں ، البتہ اگر علی اس کام کے بدلے اپنی خوشی سے کوئی رقم دے تو یہ اس کی طرف سے عطیہ شمار ہوگی۔ 

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"الإجارة باعتبار المعقود عليه على نوعين: النوع الأول: عقد الإجارة الوارد على منافع الأعيان النوع الثاني: عقد الإجارة الوارد على العمل."

 (کتاب الإجارات، ص:81، ط:نورمحمد)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"بيع السمسرة: السمسرة: ‌هي ‌الوساطة بين البائع والمشتري لإجراء البيع. والسمسرة جائزة، والأجر الذي يأخذه السمسار حلال؛ لأنه أجر على عمل وجهد معقول."

(القسم الثالث العقودات او التصرفات المدنیۃ المالیۃ، الشرط الثانی من شروط صیغۃ البیع: ان یکون القبول موافقاللایجاب، ج:5، ص:2236، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن ‌أجرة ‌السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه."

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدہ، مطلب فی استئجار الماءمع القناۃ....، ج:6، ص:63، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"(قوله: والسمسار) هو المتوسط بين البائع والمشتري بأجر من غير أن يستأجر."

( فصل فی المتفرقات فی المضاربۃ، ج:5،ص:656،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں