بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجِ ثانی کے انتقال کے بعد زوجِ اول سے نکاح کا حکم


سوال

میری شادی کو جو کہ پہلی مرتبہ ہوئی تھی بیس سال گذرچکے ہیں، شادی کے پانچ سال بعد میری طلاق ہوگئی تھی، اور اس شادی سے میرے تین بچے ہوئے تھے، پھر عدت گذار کر میں نے دوسری شادی کرلی تھی اپنے بچوں اور رشتہ داروں سے چھپ کر، شادی کے کچھ عرصے کے بعد میرے دوسرے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا اور دوسرے شوہر سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، پھر چونکہ میں نے چھپ کر شادی کی تھی اس لئے میں نے عدت نہیں گذاری تھی، اور اس بات کو پندرہ سال گذرچکے ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا میں اب اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہوں یانہیں؟ کیوں کہ میں نے دوسرے شوہر کے انتقال کے بعد عدت نہیں گذاری تھی، اب کیا میں پہلے عدت گذاروں گی یا بغیر عدت کے نکاح کرسکتی ہوں؟

وضاحت: دوسرے شوہر کے انتقال کو پانچ سال ہوچکے ہیں۔

جواب

واضح رہے شریعت مطہرہ میں جب کسی عورت کو اس کا شوہر طلاق دے دے یا اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو جس وقت طلاق دی یا جس وقت شوہر کا انتقال ہوا اسی وقت سے عدت کی ابتداء ہوجاتی ہے، پھر عدت کی تفصیل یہ ہے کہ مطلقہ کی عدت  پوری تین ماہواریاں ہیں اگرحمل نہ ہو ورنہ وضع حمل تک عدت ہے اور اگر شوہر کا انتقال ہوجائے  تو اس صورت میں عدت چار ماہ دس دن ہے خواہ وہ مہینے تیس دن کے ہوں یا انتیس دن کے ہوں بشرطیکہ شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کو ہوا ہو، وگرنہ ایک سو تیس دن کی  عدت ہوتی ہے، لہذا جس عورت کے زوج کا انتقال ہوجائے تو زوج کے انتقال کے وقت سے چار ماہ دس دن کے گذرنے کے بعد( اگر بیوہ حاملہ نہ ہو اور اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ) عدت مکمل ہوجاتی ہے، تاہم عدت کے دوران عدت کے احکام کی پابندی کرنا لازم ہوتا ہے ورنہ مطلقہ / بیوہ گناہ گار ہوتی ہے۔

صورت مسئولہ میں سائلہ کے دوسرے شوہر کے انتقال کو پانچ سال ہوچکے ہیں، تو سائلہ کے شوہر کے انتقال کے وقت سے سائلہ کی عدت گذر چکی ہے، لہذا عدت کی مدت کے گذرنے کی وجہ سے سائلہ کی عدت مکمل ہوچکی ہے، اب دوبارہ سے عدت لازم  نہیں، اگر سائلہ نے عدت کی مدت میں عدت کے  احکام کی پابندی نہیں کی تو  سائلہ پر توبہ و استغفار لازم ہے، نیز سائلہ عدت کے مکمل ہونے کی وجہ سے پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق وفي الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها كذا في الهداية"۔

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة: 1/ 531، 532، ط: ماجدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو ‌في ‌الغرة ‌كما ‌مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت (مطلقا) وطئت أو لا ولو صغيرة، أو كتابية تحت مسلم ولو عبدا فلم يخرج عنها إلا الحامل"۔

(کتاب الطلاق، باب العدۃ: 3/ 510، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں