میری بیوی کچھ عرصہ پہلے ناراض ہوکرمیکےچلی گئی ،اس کےبعدمیں نےکئی مرتبہ کوشش کی کہ وہ واپس آجائےلیکن ہرمرتبہ کوشش ناکام رہی،اب دوسری جگہ شادی کرناچاہتاہوں۔
کیامیں دوسری جگہ شادی کرسکتاہوں ؟
نیزیہ کہ استخارہ کےحوالےسےبھی رہنمائی فرمائیں،استخارہ کامکمل طریقہ بتائیں تاکہ استخارہ کرکےدوسری جگہ شادی کروں۔
1:۔شریعت مطہرہ نےمردکوچارشادیاں کرنےکی اجازت دی ہےبشر طیکہ وہ سب بیویوں کے درمیان انصاف قائم کرے اوراگروہ انصاف قائم نہیں کرسکتا تواس صورت میں ایک ہی بیوی اپنےنکاح میں رکھے ،اور اس کے حقوق صحیح طرح ادا کرے،صورت مسئولہ میں چوں کہ سائل کی بیوی سائل کےساتھ نہیں رہنا چاہتی تواس صورت میں سائل دوسری شادی کرسکتاہے۔
قرآن مجید میں ہے :
" وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا."
(النساء:3)
ترجمہ: ”اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔“
( بیان القرآن )
2:۔استخارہ کا معنی ہے خیر طلب کرنا، جب آئندہ پیش آنے والے کسی معاملے کا اچھا یا برا ہونا معلوم نہ ہو اور اس کام کے کرنے یا نہ کرنے میں تردد ہو تو بندہ کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے اس معاملہ میں خیر طلب کر لے، اسی کو استخارہ کہا جاتا ہے، جس کی ترغیب اور طریقہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے، چناں چہ ایک صحابی حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں اپنے تمام اہم امور میں استخارہ کی اس طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھا تے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ:
"جب تم میں کسی کو کوئی اہم کام در پیش ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دو رکعت نفل نماز پڑھے پھر استخارے کی دعا مانگے۔
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
"عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال:كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: (إذا هم أحدكم بالأمر، فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي، في ديني ومعاشي وعاقبة أمري، أو قال: عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي، في ديني ومعاشي وعاقبة أمري، أوقال: في عاجل أمري وآجله، فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم أرضني به. قال: ويسمي حاجته)."
(صحيح البخاري، ابواب التطوع، 1 - باب: ما جاء في التطوع مثنى مثنى، ج:1، ص:391، ط:دار ابن كثير)
دعا میں جب (هذالامر)پر پہنچے تو اپنی حاجت کا تصور کرے،اس کے بعد جس طرف دل مائل ہو وہ کام کرے۔ اگر ایک دفعہ میں قلبی اطمینان حاصل نہ ہو تو سات دن تک یہی عمل دہرائے، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101999
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن