بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے سے استخارہ کروانے کا حکم


سوال

کیا کسی اور سے استخارہ کرواسکتے ہیں؟

جواب

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے  کہ جس شخص کی حاجت ہو وہ خود استخارہ کرے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کا طریقہ اس اہتمام سے تعلیم فرماتے تھے جیسے قرآنِ کریم کی سورت یا آیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے امور میں مشورہ تو لیتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’استخارہ‘‘  نہیں کرواتے تھے، حالاں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مقدس وبرگزیدہ کوئی انسان نہیں، نیز اس وقت وحی بھی نازل ہوتی تھی جس کی روشنی میں خیر وشر یقینی طورپر معلوم ہوسکتاتھا، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لیے استخارہ کروایا اور نہ ہی کسی اور کے لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ کیا، پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعہ  آنے والی پوری امت کی تربیت اس نہج پر فرمائی کہ امت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ سے خود تعلق قائم کرے، اور مہربان رب سے ہر شخص اپنی حاجت مانگنے کے ساتھ خود ہی خیر کا خواست گار ہو۔

لہٰذا مذکورہ تفصیل کی روشنی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی دوسرے سے اپنے لیے استخارہ کروانا اگرچہ جائز  تو ہے، لیکن سنت یہی ہے کہ کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو  وہ خود سے استخارہ کرے۔ 

سنن الترمذی میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري، أو قال: في عاجل أمري وآجله، فيسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري، أو قال: في عاجل أمري وآجله، فاصرفه عني، واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم أرضني به، قال: ويسمي حاجته."

(أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاة الاستخارة، ج:1، ص:490، ط: دار الغرب الإسلامي بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406102081

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں