بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے نکاح کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا / لڑکی کا از خود نکاح کرنا / جس شخص کی صرف بیٹیاں ہوں تو میراث کیسے تقسیم ہوگی؟


سوال

1۔ کیا دوسرا نکاح کرنے کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینا ، یا اسے بتانا ضروری ہے؟

2۔ اگر لڑکی بالغ ہو تو کیا اپنی مرضی سے  ماں باپ کو بتائے بغیر نکاح کرسکتی ہے؟

3۔  اگر ایک شخص کی تین بیٹیاں ہوں، باور کوئی بیٹا نہ ہو تو اس کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ جب کہ اس شخص کے بہن بھائی بھی ہیں۔

جواب

1۔  دوسرے نکاح کے  لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا یا اسے بتانا شرعًا ضروری نہیں ہے، البتہ شریعتِ مطہرہ نے  جہاں مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے، وہاں مرد کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان لباس پوشاک، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرے، اور بیویوں کے ان حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے،  یہاں تک کہ ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے،  اور ایک بیوی کو جتنا نان و نفقہ و دیگر  ضروریات کا سامان  چھوٹی بڑی تمام اشیاء ،تحفہ تحائف  وغیرہ دے ، اتنا ہی دوسری بیوی  کو بھی دے ؛   پس جو شخص اپنی بیویوں  کے درمیان برابری نہیں کرتا تو ایسے شخص کے لیے سخت وعیدات بزبانِ نبی آخر الزماں وارد ہوئی ہیں، جب کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے والے مردوں کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتیں دی ہیں۔

"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي".

(مشكاة، باب القسم: الفصل الثاني، ٢/ ٢٨٠، ط: قديمي)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔

دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو گیا تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔

"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من كانت له إمرأتان فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة و شقه مائل أي مفلوج".

(مرقاة المفاتيح، ٦/ ٣٨٤، ط: رشيدية)

مسلم شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو... قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز و جل، و كلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم و أهليهم و ما ولوا".

(كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ :  انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے،  اور  اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رعایا کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل ..." الخ

( الباب السابع عشر في النفقات، ١/ ٥٤٤، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"الكسوة واجبة عليه بالمعروف بقدر ما يصلح لها عادةً صيفاً و شتاء، كذا في التتارخانية ناقلاً عن الينابيع".

(مطلب في الكسوة، ١/ ٥٥٥)

و فيه أيضاً:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها..." الخ

( الفصل الثاني في السكني ١/ ٥٥٦)

2۔  والدین کی اجازت کے بغیر بالغہ لڑکی کا از خود نکاح کرنا  شرعًا، عرفًا و اخلاقًا نہایت نامناسب عمل ہے، جس کی خرابی عمومًا  میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے اور طلاق کی نوبت آجانے  کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے،  کیوں کہ ایسے نکاح کا سبب  وقتی جذبات  ہوتے ہیں،  جو کہ نکاح کے بعد ماند پڑ جاتےہیں، جس کے بعد ایسے رشتے لڑائی جھگڑوں کی ہوجاتے ہیں، لہذا از خود نکاح کرنے سے اجتناب کرنا  چاہیے۔ البتہ بصورتِ مجبوری اگر کسی عاقلہ بالغہ آزاد عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کرلیا تو نکاح جائز ہوگا، تاہم غیر کفو (برابری نہ) ہونے کی صورت میں اولیاء کو ولادت ہونے سے پہلے پہلے تک نکاح فسخ کرانے کا حق ہوگا۔

مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

پسند کی شادی کرنا اور نامحرم سے فون پر بات کرنا

3۔ صورتِ  مسئولہ میں ایسے شخص کی وفات کے وقت  تک کوئی بیٹا پیدا نہ ہوا، تو اس کی  ایک سے زاید حیات بیٹیوں کو کل کا دو تہائی ملے گا، جو ان میں برابر تقسیم کیا جائے گا، جب کہ بقیہ ایک تہائی اس کے حیات بھائی بہنوں میں تقسیم ہوگا۔ 

یہ تقسیم اس صورت میں ہے جب کہ مرنے والے کی بیوہ اور والدین موجود نہ ہوں، اگر بیوہ موجود ہو تو بیٹیوں کو دوتہائی دینے کے ساتھ بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا، اور والدہ موجود ہو تو اسے چھٹا حصہ ملے گا، اور والد موجود ہو تو باقی سب والد کو ملے گا اور والد کی موجودگی میں بھائی بہن کا حصہ نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200884

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں