بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے مقتدی کے آنے کی صورت میں مقتدی کہاں کھڑا ہوگا؟


سوال

اگر امام صاحب ایک آدمی کو اپنی دائیں  طرف کھڑا کرکے جماعت کرا رہے ہیں، دوران نماز ایک آدمی اور آگیا تو وہ دائیں طرف کھڑا ہو گا یا بائیں طرف ؟

جواب

واضح رہے کہ جب امام کے ساتھ صرف ایک مقتدی  ہو تو اس کو   امام  کے  ساتھ دائیں طرف   ایک  قدم  پیچھے ہٹ کر کھڑا ہونا  چاہیے،اس صورت میں  پچھلی صف میں مقتدی کا اکیلا کھڑا ہونا مکروہ ہے،اس کے بعد نماز کے دوران  اگر دوسرا مقتدی آ جائے  تو  ایسی صورت میں پہلے سے موجود مقتدی کو چاہیے کہ وہ  پیچھے ہوجائے، یا تیسرا شخص اسے  کھینچ کر اپنے  ساتھ  پیچھے صف میں کھڑا کرلے، یہی اولی ہے، اگرچہ  جگہ میں وسعت ہونے کی صورت میں   امام کو  آگے بڑھ جانے کی بھی اجازت ہے، اور اگر مقتدی اَحکام سے ناواقفیت کی وجہ سے خود بھی پیچھے نہ ہو، تو امام کو ہی آگے ہوجانا چاہیے، نیز اگر مقتدیوں کے لیے  پیچھے ہونے کی جگہ نہ ہو، لیکن امام کے لیے آگے بڑھنے کی جگہ ہو تو امام کو آگے بڑھ جانا چاہیے۔

نیز اگر جگہ میں وسعت نہ ہو تو دونوں مقتدی امام کے دائیں اور بائیں جانب  جس قدر پیچھے ہوسکیں،  پیچھے ہوکر کھڑے ہوجائیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"إذا اقتدى بإمام فجاء آخر يتقدم الإمام موضع سجوده كذا في مختارات النوازل. وفي القهستاني عن الجلابي: أن المقتدي يتأخر عن اليمين إلى خلف إذا جاء آخر. اهـ. وفي الفتح: ولو اقتدى واحد بآخر فجاء ثالث يجذب المقتدي بعد التكبير ولو جذبه قبل التكبير لا يضره، وقيل يتقدم الإمام اهـ ومقتضاه أن الثالث يقتدي متأخرا ومقتضى القول بتقدم الإمام أنه يقوم بجنب المقتدي الأول. والذي يظهر أنه ينبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث فإن تأخر وإلا جذبه الثالث إن لم يخش إفساد صلاته، فإن اقتدى عن يسار الإمام يشير إليهما بالتأخر، وهو أولى من تقدمه لأنه متبوع ولأن الاصطفاف خلف الإمام من فعل المقتدين لا الإمام، فالأولى ثباته في مكانه وتأخر المقتدي، ويؤيده ما في الفتح عن صحيح مسلم «قال جابر سرت مع النبي - صلى الله عليه وسلم - في غزوة فقام يصلي فجئت حتى قمت عن يساره فأخذ بيدي فأدارني عن يمينه، فجاء ابن صخر حتى قام عن يساره فأخذ بيديه جميعا فدفعنا حتى أقامنا خلفه» اهـ وهذا كله عند الإمكان وإلا تعين الممكن. والظاهر أيضا أن هذا إذا لم يكن في القعدة الأخيرة وإلا اقتدى الثالث عن يسار الإمام ولا تقدم ولا تأخر".

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ،ج:1،ص:568،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"رجلان صليا في الصحراء وائتم أحدهما بالآخر وقام عن يمين الإمام فجاء ثالث وجذب المؤتم إلى نفسه قبل أن يكبر للافتتاح حكي عن الشيخ الإمام أبي بكر طرخال أنه لا تفسد صلاة المؤتم جذبه الثالث إلى نفسه قبل التكبير أو بعده. كذا في المحيط وفي الفتاوى العتابية هو الصحيح.

كذا في التتارخانية.رجلان أم أحدهما صاحبه في فلاة من الأرض فجاء ثالث ودخل في صلاتهما فتقدم حتى جاوز موضع سجوده مقدار ما يكون بين الصف الأول وبين الإمام لا تفسد صلاته وإن جاوز موضع سجوده. كذا في المحيط".

(کتاب الصلاۃ،الباب الخامس فی الامامۃ،ج:1،ص:88،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102113

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں