بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے کی منکوحہ سے نکاح کا حکم


سوال

میں نے ایک عورت سے شادی کی تھی، رشتہ کےوقت جس آدمی سے تمام معاملات  طے پائے تھے، اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ عورت میری بیٹی ہے، لہذا اس نے میرے سے مہر اور کپڑے وغیرہ کی مد میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے وصول کیے، اب میں نے اس عورت سے نکاح کیا اور اس عورت سے پوچھ گچھ کی تو اس عورت نے بتایا وہ آدمی میرا والد نہیں ہے ، بل کہ میرا شوہر ہے،لہذا میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرا نکاح ہوگیا ہےیا میں زنا میں ملوث ہوں ؟اور جو میں نے مہر وغیرہ دیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

نوٹ:اس عورت کو پہلے شوہر نے طلاق نہیں دی ہے، اور  عورت کہتی ہے کہ  میرے ساتھ نکاح کے بعد بھی اس مردنے  جسمانی تعلقات قائم رکھیں ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی اور کی منکوحہ سے نکاح کرنا شرعاً حرام وناجائز ہے ، جب تک پہلا شوہر طلاق یا خلع نہ  دے دے یااس کا انتقال نہ ہوجائے اور پھر ان سب صورتوں میں عدت مکمل نہ ہوجائے۔

چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

"والمحصنات من النساء.إلخ"(سورة النساء:آيت:24)"

فتاوی شامی میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ... فلم يقل أحد بجوازه ، فلم ينعقد أصلاً."

(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:274، ط:سعيد)

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب پہلے شوہر نے طلاق نہیں دی ہے، اور اس نے خود کو عورت کا والد ظاہر کرکے سائل کے نکاح میں دیا تو اس عورت کا سائل سے نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوا ہے، دونوں کا ساتھ رہنا یا تعلق قائم کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے، مذکورہ شخص جس نے اپنی بیوی کو بیٹی ظاہر کرکے نکاح کردیا اور مہر بھی وصول کیا بہت بڑا خائن اور سخت گناہ کا مرتکب ہے ، اگر عورت بھی اس دھوکہ دہی میں شریک ہے تو وہ بھی سخت گناہ گار ہے۔

فتاویٰ ھندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل ‌أن ‌يتزوج زوجة غيره."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ج:1، ص:280، ط:رشيدية)

2۔ صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے مذکورہ خاتون سے ازدواجی تعلق قائم کرلیا تھا تو اس صورت میں سائل اس عورت کو مہر ادا کرے گا، اور اگر ادا کرچکا ہے تو اسے واپس وصول نہ کرے، البتہ یہ مہر مہرِ مثل سے زائد نہ ہو۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويجب مهر المثل في نكاح فاسد) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود(بالوطء) في القبل (لا بغيره)...(ولم يزد) مهر المثل (على المسمى)."

(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:131، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"مطلب عدة المنكوحة فاسدا والموطوءة بشبهة: (قوله: فلا عدة في باطل) فيه أنه لا فرق بين الفاسد والباطل في النكاح."

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب العدة، مطلب عدة المنكوحة فاسدا والموطوءة بشبهة، ج:3، ص:516، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌وفي ‌النكاح ‌الفاسد يجب المهر لكن لا بنفس العقد بل بواسطة الدخول؛ لعدم حدوث الملك قبل الدخول أصلا وعدم حدوثه بعد الدخول مطلقا؛ ولانعدام المعاوضة قبل الدخول رأسا وانعدامها بعد الدخول مطلقا."

(كتاب النكاح، فصل بيان ما يجب به المهر، ج:2، ص:288، ط:رشيدية)

اللباب  فی شرح الکتاب میں ہے:

"وإن دخل بها ، فلها مهر مثلها، لأن الوطء في دارالإسلام فلايخلو عن عقر-بالفتح- اي حد زاجر ، أو عقُر-بالضم- أي مهر جابر وقد سقط الحد بشبهة العقد فيجب مهر المثل ولكن لايزداد على المسمى...إلخ."(ص:333)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100758

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں