بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے کی چیز بغیر عوض کے لینا یا اس پر قبضہ کرنا


سوال

 والد صاحب کے انتقال کے بعد میراث تمام ورثاء یعنی ہم پانچ بھائی اور چار بہنوں میں تقسیم ہوئی، میراث تقسیم ہونے کے بعد تمام ورثاء نے اپنے اپنے طے  کیے  حصےکو اپنی ملکیت میں لے لیااور اس پر قبضہ بھی کرلیا، میراث جس طرح تقسیم ہوئی تمام ورثاء اس پر رضامند تھے، جائیداد میں سے جو میرے حصے میں آیا وہ ایک گھر کے گراؤنڈ فلور کا آگے کا نصف حصہ، چھت پر موجود اسٹور اور ایک دکان تھی۔ اب میں میراث میں سے گھر کا اپنا حصہ (گراؤنڈ فلور کا نصف اور چھت پر موجود اسٹور) اپنے چھوٹے بھائی کو فروخت کررہا ہوں۔ پوچھنا یہ ہے کہ بقیہ ورثاء میں سے کسی کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ میرے حصے میں سے کسی چیز کو بغیر کسی عوض کے اپنی ملکیت یا اپنے قبضہ میں لے لیں ؟ 

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  سائل کے حصہ میں سے کسی چیز کو بغیر کسی عوض کے  لینا یا اس پر قبضہ کرنا  دیگر بہن بھائیوں کے لیے شرعاً جائز نہیں ۔

 صحیح بخاری  میں ہے:

"عن ‌سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل : أنه «خاصمته أروى في حق زعمت أنه انتقصه لها إلى مروان فقال سعيد: أنا أنتقص من حقها شيئا أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ‌من ‌أخذ ‌شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»."

(كتاب بدأ الخلق، ج:4، ص:107،المطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " «‌ألا ‌لا ‌تظلموا، ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني(إلا بطيب نفس ) أي: بأمر أو رضا منه."

(باب الغصب والعارية، ج:5، ص:1974، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں