بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مال سپلائی میں مال ضائع ہوجانے کی صورت میں تاوان کا حکم


سوال

 میرے پاس آئل ٹینکر ہیں جو پورے پاکستان میں سپلائی کرتے ہیں ،مال ہم دیانت داری کے ساتھ مقامات پر پہنچاتے ہیں ؛لیکن مقام پر مال میں کمی کی صورت میں ہم سے کرایہ کاٹ دیا جاتا ہے چاہے  ایک لیٹر ہو یا جتنا بھی ہو ؟اگرہم اس میں سے بقدرِ ضرورت مال بیچ دیں تو کیا جائز ہوگا کیوں کہ کرایہ سے تو کاٹتے  ہیں؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  سائل کے پاس کمپنی کا مال امانت کے طور  پر ہوتا ہے ،اگر مال پہنچانے کے بعد اس مال میں کمی سائل کے فعل سے ہوئی ہے تو  اس کا ضمان شرعاً سائل پر دینا لازم ہوگا اور کمپنی اس کے بقدر  رقم کاٹ سکتی ہے اور اگر سائل کی طرف سے تعدی نہیں تھی اور مال میں کمی پائی گئی تو اس صورت میں سائل پر اس کا ضمان نہیں آئے گا ،اور  کمپنی کے لیے  کرایہ میں سے کٹوتی شرعاً جائز نہیں ہوگی ،البتہ سائل کے لیے کمپنی کی اجازت کے بغیر اس میں سے مال بیچنا شرعاً جائز نہیں ۔

شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے:

"الوديعة أمانة في يد المودَع، فإذا هلكت بلا تعد منه و بدون صنعه و تقصيره في الحفظ لايضمن، ولكن إذا كان الإيداع بأجرة فهلكت أو ضاعت بسبب يمكن التحرز عنه لزم المستودع ضمانها".

( أحكام الوديعة، رقم المادة:777، ج:1، ص:342، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں