بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے کے باڑے سے اس کی اجازت کے بغیر جانورلے کر قربانی کرنے کا حکم


سوال

 میں نے قربانی سے 15 دن قبل دو گائیں خریدی، اور اسے دیکھ بھال کے لیےباڑے والے(بائع) کے پاس چھوڑ دیا ،اور اس سے کہا کہ میں عید سے چند دن پہلے آکر لے جاؤں گا، بائع پر کسی کا قرض تھا تو اس نے میری دونوں گائیں  بطور گروی رکھوا دی ، جب میں گائیں  لینے گیا تو جس کے پاس گروی رکھی گئی تھی اس نے دینے سے انکار کردیا، اور اس وقت بائع بھی فرار ہوچکا تھا، کافی انتظار کے بعد جب بائع کی کوئی خبر نہ ملی تو میں اسی کے باڑے سے ایک گائے کھول کر اپنے گھر لے آیا ،اور اس کی قربانی کی، جب کہ میرے دونوں جانورں کی اس شخص نے قربانی  کردی جس کے پاس گروی کے طور پر وہ رکھی گئی تھیں، واضح رہے کہ وہ دونوں جانور صرف میرے تھے یعنی میرے کل 14 حصے تھے،

1۔اب سوال یہ ہےکہ کیا اس طرح میری قربانی ہوگئی ،جب کہ میں نے وہ جانور خریدا بھی نہیں تھا؟

2۔اگر قربانی ہوگئی تو کیا دوسرے جانور کی قربانی بھی مجھ پر لازم ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں جب سائل  کی دو نوں گائیوں کی اس شخص نے قربانی کردی جس کے پاس وہ بائع کی طر ف سے گروی رکھی گئی تھیں  تو  اس کا اصل مالک چوں کہ سائل تھا اس وجہ سے  ان دونوں گائیوں کی قربانی سائل کی طر ف سے اداہوگئی اور سائل نے   بائع  کے باڑے سے   جس گائے کو لاکر  ذبح کیا   اس کا ضامن سائل ہے ،سائل پر لازم ہے کہ وہ اس کی رقم مالک ( بائع )  کو اداکردے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412101136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں