بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 محرم 1447ھ 07 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

دو شخصوں کا زمین کرایہ پر لے کر مزارعت کرنا/عمل کرنے والے شریک کا اپنے حصہ سے زیادہ پیداوار لینے کا حکم


سوال

دوشخص  ایک زمین کاشت کے لیے  اجارہ پر لیتے ہیں، پھر ان دوشخصوں میں سے ایک شخص کام کرتاہےاور دونوں شریک  آپس میں یہ طے کرتے ہیں کہ جو پیداوار ہوگی،اس میں سے  ایک حصہ عمل کرنےوالے شخص  کو ملے گا اور باقی آپس میں دونوں شریکوں کے درمیان برابر تقسیم ہوگا، جب کہ بیچ اور دیگر تمام چیزیں واخراجات دونوں شخصوں  کے درمیان برابر مشترک طورپر ہوں گے ، عمل کرنے والے کوعمل کی وجہ سے ایک حصہ الگ سے دیا جائے گا ،اس معاملہ کا شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں زمین اجارہ پر لینا جائز ہے،البتہ مذکورہ معاملہ  میں  زمین اور بیچ اور یگر تمام اخراجات میں دونوں شریک برابر کے شریک ہیں، تو عمل کرنے والے شریک کے لیےعمل کے عوض اس کے حصے سےزیادہ پیداوار  مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تصح إجارة (أرض للزراعة مع بيان ما يزرع فيها، أو قال على أن أزرع فيها ما أشاء) كي لا تقع المنازعة وإلا فهي فاسدة للجهالة، وتنقلب صحيحة بزرعها.... ...و) تصح إجارة أرض (للبناء والغرس) وسائر الانتفاعات كطبخ آجر وخزف ومقيلا ومراحا حتى تلزم الأجرة بالتسليم أمكن زراعتها أم لا."

(كتاب الإجارة ، باب مايجوز من الإجاره ومايكون خلافا فيها، ج: 6، ص: 29، ط: دارالفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو كانت الأرض والبذر منهما وشرطا العمل على أحدهما على أن يكون الخارج بينهما نصفين جاز ويكون غير العامل مستعينا في نصيبه ولو كانت الأرض والبذر منهما وشرطا للدافع ثلث الخارج والثلثين للعامل لا يجوز في أصح الروايتين."

) كتاب المزارعة، الباب الثاني في بيان انواع المزارعة، ج: 5، ص: 276، ط: دارالفکر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

«(ومنها) شركة العامل فيما يعمل فيه؛ لأن العامل أجير رب الأرض، واستئجار الإنسان للعمل في شيء هو فيه شريك المستأجر لا يجوز حتى إن النخل لو كان بين رجلين فدفعه أحدهما إلى صاحبه معاملة مدة معلومة على أن الخارج بينهما أثلاث ثلثاه للشريك العامل وثلثه للشريك الساكت فالمعاملة فاسدة والخارج بينهما على قدر الملك ولا أجر للعامل على شريكه لما مر أن في المعاملة معنى الإجارة، ولا يجوز الاستئجار لعمل فيه الأجير شريك المستأجر وإذا عمل لا يستحق الأجر على شريكه لما عرف في الإجارات ولا يشبه هذا المزارعة؛ لأن الأرض ‌إذا ‌كانت ‌مشتركة بين اثنين دفعها أحدهما إلى صاحبه مزارعة على أن يزرعها ببذره.وله ثلثا الخارج أنه تجوز المزارعة؛ لأن هناك لم يتحقق الاستئجار للعمل في شيء الأجير فيه شريك المستأجر لانعدام الشركة في البذر وهنا تحقق لثبوت الشركة في النخل فهو الفرق."

(كتاب المعاملة، فصل في شروط الفاسدة للمعاملة ،ج: 8، ص: 288، ط: دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144607102598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں