بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوران سفر کسی کے ہاں پندرہ دن سے کم رکنا


سوال

 میں ایک گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں  نوکری کر رہا ہوں ،میری نوکری کی جو جگہ ہے وہ میرے گھر سےسو کلومیٹر دور ہے اور راستے میں میری نانی کا گھر ہے جو تقریبا 70 کلو میٹر میں آتا ہے ،جب میں گھر سے نکلتا ہو ں تو نانی کے گھر بھی رکتا ہوں اور اپنی نوکری پر جاتا ہوں ،وہاں سے واپسی پر بھی میں اپنی نانی کے گھر آتا ہوں اور پھر اپنے گھر جاتا ہوں ،میرے گھر سے میری  نوکری کے لیے جانے کا فاصلہ 100کلومیٹر ہے ،تو آیا میں نماز پوری پڑھ لوں گا جب میں اپنے گھر سے نوکری کے لیےنکلوں گا ،تو آیا میں قصر نماز پڑھوں گا  ؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب سائل کی نانی   کاگھراپنےگھرسے ستر کلو میٹر کےفاصلے پرہے، جوکہ  مسافت قصر نہیں ہے، جبکہ نوکری کی جگہ سو کلو میٹر کے فاصلے پرہے جوکہ مسافت قصر ہے، لہذا اگر سائل نوکری کی جگہ کےارادہ سے گھر سے نکلتاہے اور راستے میں نانی کے گھر بھی عارضی طور پر قیام کرتا ہے اوروہ قیام بھی پندرہ دن سے کم ہوتاہے، توسائل راستے میں نانی کے گھراور نوکری کی جگہ پرقصرکرتارہےگا،ہاں اگرنوکری کی جگہ پندرہ دن کےقیام کی نیت سےرکےگاتوپھروہاں مقیم ہوگا،اس کےبعدجب تک وہاں نوکری رہےگی اوررہائشی سامان اوررہائش گاہ برقراررہےگاوطن اقامت بھی برقراررہےگا،اس صورت میں نوکری کی جگہ پر پندرہ دن سےکم قیام کرنےکی صورت میں بھی پوری نماز اداکرےگا،اورراستہ میں مسافر ہوگااس لیےنانی کےگھرمیں اگرپندرہ دن سےکم ٹھہرےگاتوقصرکرےگاورنہ پوری نمازپڑھےگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(من خرج من عمارة موضع اقامته ) من جانب خروجه (قاصدامسيرة ثلاثة ايام ولياليها)من اقصر ايام السنة (بالسيرالاوسط مع الاستراسحة المعتادة)۔وقال في درالمحتار:ثم اختلفوا فيه فقيل :احد وعشرون ،وقيل :ثمانية عشر،وقيل :خمسة عشر،والفتوى على الثاني لانه الاوسط."

(الدرالمختار مع ردالمحتار،ج:2،ص :121،ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"والذي يظهرلي  في التوفيق انه اذاكان مسافرافاقام في بلد دون نصف شهرلم يعتبر هذاالوطن اصلا لانه يقصر فيه فاذاخرج منه ثم رجع اليه  يقصر ايضا،وعليه يحمل كلام المحقيقن الذين لم يعتبروا وطن السكني كمايفيد مانقله المؤلف عنهم،وحاصله انه يعتبرقبل تحقق السفر لابعده."

(باب صلاۃ المسافر،ج:2،ص:241،ط:دارالكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:،

"وذكر الإسبيجابي  المقيم اذاقصد مصرامن الأمصار،وهوما دون مسيرة ثلاثة أيام لايكون مسافرا،و لوأنه خرج من ذلك المصر الذي قصد إلى مصر آخر ،وهوأيضا أقل من ثلاثة أيام فإنه لايكون مسافرا."

(باب صلاۃ المسافر،ج:2،ْص:228،ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں