میں فروری 2023 ءکو صاحبِ نصاب ہوا، اور اگست 2023ء میں میں نے کچھ اور سونا خرید ا، کیا مجھے فروری والے سونے کے ساتھ اگست والے سونے کی زکوٰۃ بھی نکالنی ہے یا وہ اگست میں ہی دینی ہوگی؟
چونکہ آپ پچھلے سال فروری میں صاحبِ نصاب ہوگئے تھے،لہذا اس سال فروری کے مہینے میں آپ کے پاس جس قدر قابلِ زکوۃ اموال ہیں ان سب کی زکات فروری ہی میں نکالنا ضروری ہے، ہر ہر مال پر سال کا گزرنا ضروری نہیں، اور اگست 2023ء میں جو سونا آپ کے ملکیت میں آیا اس کی زکات بھی فروری 2024ء میں نکالی جائے گی، نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ سال گزرنے میں قمری سال کا اعتبار ہے،لہذا زکات قمری سال پورا ہونے پر ہی نکالنی چاہیے،اور اگر قمری سال کے حساب سے زکات نکالنا مشکل ہوتو شمسی سال کے حساب سے زکات نکالی جاسکتی ہے،لیکن چوں کہ شمسی سال قمری سال سے 11/12 دن بڑا ہوتا ہے؛ اس لیے احتیاطاً بارہ دن کی زکات مزید ادا کرنی ضروری ہے،جس کا طریقہ درج ذیل لنک میں ملاحظہ فرمائیں!
شمسی سال کے حساب سے زکوۃ ادا کرنا
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة كذا في الهداية. ولو استبدل مال التجارة أو النقدين بجنسها أو بغير جنسها لا ينقطع حكم الحول، ولو استبدل السائمة بجنسها أو بغير جنسها ينقطع حكم الحول كذا في محيط السرخسي.
ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك، ولو كان من غير جنسه من كل وجه كالغنم مع الإبل فإنه لا يضم هكذا في الجوهرة النيرة. فإن استفاد بعد حولان الحول فإنه لا يضم ويستأنف له حول آخر بالاتفاق هكذا في شرح الطحاوي. ثم إنما يضم المستفاد عندنا إلى أصل المال إذا كان الأصل نصابا فأما إذا كان أقل فإنه لا يضم إليه، وإن كان يتكامل به النصاب وينعقد الحول عليهما حال وجود النصاب كذا في البدائع".
(کتاب الزکاۃ، باب فی شروطها، ج:1،ص:175،ط:دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وحولها) أي الزكاة (قمري) بحر عن القنية (لا شمسي)."
(کتاب الزکاة، ج:2، ص:294، ط:سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144507102050
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن