بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ ملازمت کوتاہی کرنا


سوال

میں سرکاری سکول میں مدرس ہوں ،دوران ملازمت مجھ سے جوکوتاہی سرزد ہوجائے،تو میں اس تنخواہ کو سرکاری خزانے میں جمع کرتا ہوں،اور سال کے آخر میں طلبہ سے معافی بھی مانگتا ہوں،آیا میرا ذمہ فارغ ہوجائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا  تو اس   غیر حاضری کے بقدر تنخواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا۔

 صورتِ مسئولہ میں سائل کی ملازمت میں کوتاہی سے اگر یہ مراد ہے کہ وہ  سرکار کی طرف سے مقررہ اوقات میں   کوتاہی کرتاہے مثلاً یا تو آتا ہی نہیں ہے، یا مقررہ وقت سے پہلے چلے جاتا ہے ، یا تاخیر سے آتا ہے تو اس  صورت میں  سائل کےلیے غیر حاضری والےاوقات کی تنخواہ لینا جائز نہیں ہوگا ،  اگر وصول کر چکا ہو تو اتنی  تنخواہ  سرکاری خزانے میں جمع کروانا ضروری ہے،اور آئندہ ایسی  کوتاہی سے اپنے آپ کو بچائے، اور اگر  یہ مراد ہے کہ پڑھانے میں کوتاہی ہوجاتی ہے تو اس صورت میں اگر ا س کی تلافی ممکن ہو تو وہ کرے، مثلاً طلبہ کو کوئی مضمون اپنی کوتاہی کی بنا پر نہیں پڑھایا تو ا س کی تلافی یہی ہے کہ اس کو پڑھائے، باقی معمولی کوتاہیاں جو ہوں تو ان کے لیے معافی مانگ کر خدا سے توبہ بھی کرے، امید ہے کہ ذمہ ساقط ہوجائے گا۔  

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد ج:9،ص:140، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الإجارۃ، الباب الثانی متی تجب الأجرۃ، ج:4، ص:423، ط:ماجدية)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: و ليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي: و إذا استأجر رجلًا يومًا يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضًا. و اتفقوا أنه لايؤدي نفلًا و عليه الفتوى. و في غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لايمنع في المصر من إتيان الجمعة، و يسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدًا، و إن قريبًا لم يحط شيء فإن كان بعيدًا و اشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله: و لو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم و هو يعلم فهو آثم، و إن لم يعلم فلا شيء عليه و ينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(كتاب الإجارة، مبحث الأجير الخاص، ج6، ص70، ط : سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں