بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ جماعت تیسری رکعت میں شامل ہونے والا بقیہ نماز کیسے پوری کرے؟


سوال

جماعت کے دوران اگر بندہ تیسری رکعت میں جماعت میں شامل ہو تو نماز کا طریقہ عام جماعت کے ساتھ ہو گا؟

جواب

آپ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کون سی نماز کی تیسری رکعت میں امام کے ساتھ شامل ہوا، نیز تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے شامل ہوا یا بعد میں؟

بہرصورت مسئلے کا حکم درج کیا جاتا ہے، اگر کوئی شخص چار رکعات والی فرض نماز میں امام  کے ساتھ تیسری رکعت میں رکوع سے پہلے شامل ہوا تو یہ رکعت اسے مل گئی، امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ دو رکعت ادا کرے گا، اور اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ امام کے دونوں طرف سلام  پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثنا ء، تعوذ و تسمیہ   پھر سورۂ فاتحہ، فاتحہ  کے بعد کوئی سورت پڑھ کر رکوع کرے،   اور  دوسری رکعت میں بھی سورۂ فاتحہ اور اس کے ساتھ سورت یا آیات پڑھے، اور دوسری رکعت کے بعد آخر میں قعدہ کرے۔

اور اگر چار رکعات والی فرض نماز میں امام کے ساتھ تیسری رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہوا تو یہ رکعت اس کی چھوٹ گئی، اب امام کے ساتھ اس کی صرف ایک ہی رکعت ہوئی، چناں چہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد وہ تین رکعات ادا کرے گا، اور اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثناء پڑھے، پھر تعوذ و تسمیہ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور سورت پڑھے، اور رکوع وسجود کے بعد قعدہ میں بیٹھ کر صرف تشہد پڑھے، پھر دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت پڑھ کر رکوع و سجود کے بعد سیدھا کھڑا ہوجائے اور  تیسری  (مجموعی طور پر آخری رکعت)  میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھے، اور آخر میں قعدہ کرکے سلام پھیرلے۔

اور اگر تین رکعات والی فرض نماز کی تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا تو اس کی دو رکعت چھوٹ گئیں، امام کے دونوں سلام پھیرنے کے بعد  کھڑے ہوکر ثناء، تعوذ و تسمیہ، سورۂ فاتحہ اور سورت پڑھ کر رکوع و سجود کرکے قعدہ کرے، اس میں التحیات پڑھ کر کھڑا ہوجائے اور دوسری رکعت (مجموعی طور پر آخری رکعت) میں سورۂ فاتحہ اور سورت پڑھ کر رکوع و سجود کے بعد قعدہ اخیرہ کرکے نماز مکمل کرے۔

اور اگر تین رکعات والی فرض نماز میں تیسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہوا تو اس کی گویا پوری تین رکعات چھوٹ گئیں، چناں چہ امام کے  دونوں سلام پھیرنے کے بعد یہ شخص مکمل نماز اس طرح ادا کرے گا جیسے منفرد (تنہا نماز پڑھنے والا) یا امام ادا کرتاہے۔

البحرالرائق میں ہے:

"و حقيقة المسبوق هو من لم يدرك أول صلاة الإمام و المراد بالأول وله أحكام كثيرة، فمنها: أنه منفرد فيما يقضي ... و من أحكامه: أنه يقضي أول صلاته في حق القراءة و آخرها في حق التشهد، حتى لو أدرك مع الإمام ركعةً من المغرب فإنه يقرأ في الركعتين بالفاتحة و السورة، و لو ترك القراءة في أحدهما فسدت صلاته و عليه أن يقضي ركعة بتشهد؛ لأنها ثانيته، و لو ترك جازت استحساناً لا قياساً. و لو أدرك ركعةً من الرباعية فعليه أن يقضي ركعةً و يقرأ فيها الفاتحة و السورة ويتشهد؛ لأنه يقضي الآخر في حق التشهد ويقضي ركعةً يقرأ فيها كذلك و لايتشهد، وفي الثالثة يتخير و القراءة أفضل. و لو أدرك ركعتين يقضي ركعتين يقرأ فيهما ويتشهد، ولو ترك في أحدهما فسدت. ومن أحكامه أنه لو بدأ ... بقضاء ما فاته، ففي الخانية و الخلاصة: يكره ذلك؛ لأنه خالف السنة".

(كتاب الصلاة ،باب الحدث في الصلاة،استخلاف المسبوق في الصلاة،ج:1،ص:401۔403،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں