کیا دوران حمل غصےمیں دی ہوئی طلاق ہوجاتی ہے اور اگر ہوجاتی ہے تو اسی عورت کے ساتھ رہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
حمل کے دوران غصے میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے،اگر ایک طلاق دی ہے تو ایک طلاق اور اگر ایک سے زائد طلاقیں دی ہیں تو جتنی طلاقیں دی ہیں اُتنی طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ طلاق کے بعد عدت کی ابتدا ہوجاتی ہے،اور حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے،لہذا اگر ایک یا دوطلاق رجعی دی ہیں تو عدت میں رجوع کرکے میاں بیوی دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، نکاح بدستور قائم رہے گا اور شوہر کو آئندہ کے لیے باقی ایک یا دوطلاق کا اختیار ہوگا۔ لیکن اگر تین طلاقیں دی ہیں یا ایک ،دو طلاق بائن دی ہیں تو نکاح ختم ہوجائے گا اور دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے،تاہم طلاق بائن اور تین طلاقوں کی صورت میں عدت مکمل ہونے تک عورت کو پردے کے ساتھ رہائش فراہم کرنا شوہر پر لازم ہے۔ پھر ایک ،دو طلاق بائن کی صورت میں عدت کے دوران یا عدت مکمل ہونے(بچے کی پیدائش) کے بعد اگر دونوں چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ دوگواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ لیکن تین طلاقوں کی صورت میں رجوع کرناجائز نہیں اور عدت گزرنے کے بعد تجدید نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"(وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل"
(کتاب الطلاق،ج3،ص232،ط؛سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411102669
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن