بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں پانی ہوتے ہوئے مسجد کے پانی سے وضو کرنے کاحکم/ دورانِ وضو باتیں کرنے کا حکم


سوال

1- گھروں میں پانی ہونے کے باوجود اکثر لوگ مسجد میں جا کر وضو کرتے ہیں،  کیا مسجد میں جا کر وضو کرنا صحیح ہے؟  برائے مہربانی  دونوں صورتوں میں مکمل حوالہ کے ساتھ رہنمائی فرما دیں!

2- وضو کے دوران باتیں کرنا کیسا عمل ہے؟  برائے مہربانی احادیث اور فتاوی کے حوالے سے رہنمائی فرما دیجیے!

3- مسجد میں چندہ مانگنا کیسا عمل ہے؟  اگر کوئی مانگے تومانگنے دینا چاہیے اور اگر کوئی چندہ دے تو اسے دینا چاہیے؟ ان دونوں کے بارے میں کیا حکم ہے ؟  برائے مہربانی فتاوی اورحادیث کے حوالے سے مکمل تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرما دیجیے!

جواب

بصورتِ مسئولہ  گھر میں پانی کے ہوتے ہوئے مسجد کے پانی سے وضو کرنا صحیح ہے، تاہم نمازی کا گھر سے وضو کرکے مسجد جانے میں بہت بڑا ثواب ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی عادت ہے،ایسے لوگوں کو اتنا ثواب ملتا ہے جتنا کہ حاجیوں کو احرام کی حالت میں ملتا ہے، حدیث شریف میں ہے:

"حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: جو اپنے گھر سے وضو کرکے فرض نماز کے  لیے مسجد کی طرف نکلتا ہے اس کا ثواب اس حاجی کے مانند ہوتا ہے جو احرام کی حالت میں ہو۔"

2: وضو کے دوران بلاضرورت باتیں کرنا مکروہ ہے،  البتہ ضروری بات کرنا بلاکراہت جائز ہے۔

3:مسجد میں چندہ کرنے کا حکم یہ ہے کہ دینی  ضرورت کے لیے،  مثلاً مسجد یا مدرسہ یا کسی اور دینی مقصد کے لیے اگر چندہ کی ضرورت ہو تو  مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ چندہ کرنا جائز ہے اور ایسی جگہ میں چندہ دینا ایک افضل عمل بھی ہے :

(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔

(2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ۔

(3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے۔

(4) چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر  کسی کو عار نہ دلائی جائے۔

تاہم بہتر  یہی ہے کہ چندہ مسجد سے باہر  کیا جائے، اور ضرورت پر مسجد میں صرف اعلان کرلیا جائے۔ شدید ضرورت کے مختلف مواقع پر نبی کریم ﷺ کی طرف سے تعاون کا اعلان اور بعض مواقع پر (جیسے غزوہ تبوک، اور ایک ضرورت مند قبیلے کے وفد کی آمد کے موقع پر) آپ ﷺ کا خود مسجد میں امداد جمع کرنا منقول ہے۔ 

جہاں تک ذاتی ضرورت کے لیے سوال کرنے کا حکم ہے تو  ملحوظ رہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو  کم جمع کرے یا زیادہ۔ اور جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں، ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اور مسجد کی حدود میں سوال کرنے سے منع کرنا چاہیے؛ البتہ منع کرتے وقت حقارت آمیز رویہ نہیں رکھنا چاہیے۔ اور اگر کوئی شخص ایسے افراد کو چندہ دے تو اُسے منع نہیں کرنا چاہیے، اس میں بھی صدقے کا ثواب ملے گا۔ تاہم زکات اسی شخص کو دینی چاہیے جس کے بارے میں غالب گمان ہو کہ یہ زکات کا مستحق ہے۔ 

مزید دیکھیے:

مسجد میں سوال کرنے (بھیک مانگنے) اور ایسے سائل کی مدد کرنے کا حکم 

مسجد میں بھیک مانگنے کا حکم اور بھیک مانگنے والوں کو بھیک دینے کا حکم

سنن أبي داود  میں ہے:

"عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ."

(كتاب الصلوة، باب ماجاء فى المشي الى الصلوة، ج:1، ص:153، ط:دارالكتب العمية)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"و" يكره "التكلم بكلام الناس" لأنه يشغله عن الأدعية "

قوله: "ويكرم التكلم بكلام الناس" ما لم يكن لحاجة تفوته بتركه قاله ابن أمير حاج قوله: "لأنه يشغله عن الأدعية" ولأجل تخليص الوضوء من شوائب الدنيا لأنه مقدمة العبادة وذكر بعض العارفين أن الاستحضار في الصلاة يتبع الإستحضار في الوضوء وعدمه في عدمه قوله: "ويكره الإستعانة الخ" تقدم ما فيه وإنه لا بأس بها وأما حديث عمر فضعيف ولا يقاوي غيره مما يدل على ثبوتها عنه صلى الله عليه وسلم أفاده بعض المحققين."

( كتاب الطهارة فصل فى المكروهات، ص:81، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.

(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـ ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم."

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، مطلب فى السؤال على الصدقة فى المسجد، ج:2، ص:164، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144207201176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں