بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فوج کی سرورس میں دورانِ ملازمت انتقال کرجانے والے فوجی کے لواحقین کو ملنے والی امداد کا حکم


سوال

ایک فوجی شخص دورانِ  سروس سن 65  کی جنگ میں شہیدہوگیاتھا، فوج کی طرف سےاس کےلواحقین کو کچھ  زمین اورمکان وغیرہ،  جس طرح حکومت دورانِ سروس حادثاتی طورپرانتقال کرجانے والے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں پولیس اہلکاروں کی بیوہ اوربچوں  کے لیے بڑی گرانٹ وغیرہ دیتی ہے،  اسی طرح موصوف فوجی کوبھی دیاگیاتھا، اس وقت شہید کے بچے چھوٹے اور ناسمجھ تھے، شہید کی بیوہ نے دوسری شادی کرلی اور بچے دادا نے پالے، اب کئی سالوں بعد بچےباپ کی دورانِ سروس شہادت کےبعد شہید کی بیوہ کو  ملنے والی حکومتی گرانٹ یاامداد میں  سےحصہ مانگ رہےہیں، کیا اولاد شرعًا اس گرانٹ یاامداد میں  مطالبہ کرسکتی ہےیانہیں؟

جواب

کسی بھی ادارے کے ملازم کے انتقال کے بعد ادارے کی جانب سے مرحوم ملازم کے پس ماندگان  کو جو  رقم  امداد کے طور پر دی جاتی ہے وہ رقم ملازم کے  ترکہ میں شامل نہیں ہوتی،  بلکہ وہ رقم ادارے کی جانب سے عطیہ،  امداد  اور  تبرع ہوتا ہے،  اس لیے  ادارہ مرحوم کے جن لواحقین کو وہ رقم دے گا وہی اس کے مالک ہوں گے۔

         صورتِ  مسئولہ میں   مذکورہ   مرحوم  ملازم کے  ملازمت کے دوران انتقال کی صورت میں محکمہ کی جانب سے اس کے لواحقین  کو متعلقہ محکمہ کے ضابطہ کے مطابق جو  زمین، مکان اور رقم وغیرہ دی گئی ہے ،  یہ چیزیں  مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوں گی، بلکہ ادارے نے  جن لواحقین کے نام جس تناسب سے جاری کی ہیں اسی کے مطابق ان کو ملیں  گی، اگر  متعلقہ ادارے نے  یہ رقم بیوہ اور بچوں   دونوں کے نام سے دی ہیں تو اس میں بیوہ کے ساتھ  ، مرحوم کے  بچوں کا  بھی حق و حصہ ہوگا، اور اگر ادارے نے صرف  بیوہ کے ہی نام سے جاری کی ہیں تو  وہی اس کی مالک ہوگی، بچوں کا اس میں کوئی حق وحصہ نہیں ہوگا، خلاصہ یہ ہے کہ متعلقہ ادارے کی طرف سے ملنے والی زمین، مکان اور  رقم  اسی کی ملکیت ہوگی  جس کو ادارہ نامزد کرکے دےگا، لہذا  متعلقہ ادارے سے ان کا ضابطہ دریافت کرلیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن تركه الميت من الأموال صافيًا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال، كما في شروح السراجية."

 (6/759،  کتاب الفرائض، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(هي) لغةً: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعًا: (تمليك العين مجانًا) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه ... (وسببها إرادة الخير للواهب) دنيوي كعوض ومحبة وحسن ثناء، وأخروي."

(5/ 687، کتاب الھبة، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقھیہ میں ہے:

"العطية: هي ما أعطاه الإنسان من ماله لغيره، سواء كان يريد بذلك وجه الله تعالى، أو يريد به التودد، أو غير ذلك."

(23/ 227، تحت عنوان الزکاۃ، ط:  دارالسلاسل کویت)

         امداد الفتاوی میں ہے:

’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسان ِ سرکار ہے، بدونِ  قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے۔‘‘

(4/343، کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ط: دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں