بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ حمل دی ہوئی طلاق کے واقع ہونے کا حکم


سوال

 شوہر نے میری بیٹی کو پہلی طلاق نومبر 2019 میں دی،  دوسری طلاق جب میری بیٹی حاملہ تھی، تب 2020 میں مئی کے مہینے میں دی ، اور تیسری طلاق کل رات کو دی، لیکن وہ حمل کی صورت کی طلاق کو نہیں مانتا اور دو طلاق ہی گنتا ہے!

جواب

واضح  رہے کہ  مرد اگر اپنی بیوی کو زبانی  یا تحریری طور پر تین دفعہ طلاق دے دے تو اس سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور بیوی اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، نکاح ختم ہوجائے گا، اس کے بعد رجوع اور دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے، زوجہ عدت  گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، حمل  کی حالت طلاق کے واقع ہونے سے مانع نہیں ہے ۔

بصورتِ  مسئولہ  مذکورہ خاتون متفرّق طور پر تین طلاقیں ملنے  پر تینوں طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے اپنے شوہر پر حرمتِ غلیظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، لہذا مذکورہ خاتون پر لازم ہے کہ وہ فوراً علیحدہ گی اختیار کرے، جس کے بعد وہ عدت گزارکر کسی دوسری جگہ نکاح کرنے میں خود مختار ہے، نیز یہ فلسفہ پیش کرنا کہ دورانِ حمل طلاق واقع نہیں ہوتی،یہ بات خلافِ شرع ہے جس پر صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، اور مذکورہ شخص کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع  میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."

(کتاب الطلاق، ج:3، ص: 187، ط:ایچ ایم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144211201429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں