بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ اعتکاف کھانے کے لئے ہاتھ دھونے/ جمعہ کے غسل کے نکلنے کا حکم/ ٹؤٹنے کی صورت میں قضاء کا حکم


سوال

1: کوئی معتکف رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں ہو اور وہ دورانِ اعتکاف کھانے کے وقت ہاتھ دھونے کے لیے یا جمعہ کے غسل کے لیے مسجد کے حدود کے اندر موجود غسل خانے میں جاکر بغیر بات چیت واپس آجائے، تو کیا اس سے اعتکاف مسنون ٹوٹ جائے گا یا نہیں ؟

2: اگر ٹوٹ گیا تو قضا کی کیا صورت ہوگی؟برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت:غسل خانہ مسجد کے حدود کے اندر ہے۔

جواب

واضح رہے کہ مسجدوں میں موجودمستقل وضو خانہ اور غسل خانہ مسجدِ شرعی کی حدود سے خارج ہوتے ہیں،کیوں کہ عرف میں مسجد کے تمام احاطہ کو ”مسجد“ کہتے ہیں، لیکن حقیقت میں مسجد ِ شرعی وہ جگہ ہوتی ہے جو نماز اور سجدہ کے لیے مقرر کی جاتی ہے، اور یہی حصہ حدودِ مسجد ہے،   اور مسجد میں وہ جگہ جہاں وضو خانہ ، غسل خانہ ، امام، مؤذن وغیرہ کے کمرے ہوتے ہیں، وہ حدودِ مسجد نہیں ہے بلکہ  احاطہ مسجد اور فناءِ مسجدہے، نیز معتکف کے لئے اعتکاف کے دوران شرعی مسجد کی حدود میں رہنا ضروری ہوتا ہے، بغیر طبعی اور شرعی ضرورت کےحدودِ مسجد سے نکل کر اس کے احاطہ  میں آنے سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا، لہذا صورتِ مسئولہ میں:

1: جمعہ کے غسل کرنے کے لیے بھی معتکف کو مسجد سے باہر جانا جائز نہیں البتہ جمعہ سے پہلے شرعی طبعی ضرورت مثلا جمعہ پڑھنے یا پیشاب پاخانے کے لیے اگر معتکف نکل جائے تو واپسی میں جمعہ کا غسل کر سکتا ہے، اس وقت بھی جلدی غسل سے فارغ ہو کر مسجد میں آجائے کیونکہ جمعہ کا غسل مسنون عبادت ہے اور ایسی صورت میں ہر عبادت ادا کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح  معتکف کے لیے کھانا کھانے سے پہلے یا بعد میں ہاتھ دھونے کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے،  مسجد ہی میں کسی برتن میں دھولے۔

2: صورتِ مسئولہ میں جب دوران اعتکاف باہر نکلنے سے خواہِ ہاتھ دھونے کے لئے ہو یا محض جمعہ کے غسل کے لئے ہو تو چوں کہ اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے،اور سنت اعتکاف ٹوٹنے کی صورت میں ایک دن ایک رات کی قضا لازم ہے،  جس کا طریقہ یہ ہےکہ ایک دن، رات روزے کے ساتھ  مسجد میں اعتکاف کرے، خواہ رمضان میں کرے یا رمضان کے بعد، یعنی غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد چلا جائے اور اگلے دن روزہ رکھے اور پھر غروبِ آفتاب کے بعد واپس آجائے، عورت گھر میں نماز کی جگہ پر اعتکاف کرلے۔

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

"(استفتاء :350)رمضان کے اخیری عشرہ کے اعتکاف میں جمعہ کے غسل سنت کے لئے نکلنا کیسا ہے ؟ بینواتوجروا۔

(الجواب)فرض غسل کے سوا جمعہ وغیرہ کے غسل کے لئے نکل نہیں سکتے ۔ وغسل لواحتلم (در مختار مع الشامی ج:2،  ص:180) فقط واللہ اعلم بالصواب ۔"

(باب الاعتکاف،عنوان: حالت اعتکاف میں غسلِ جمعہ ، ج:8، ص:276، ط:دارالاشاعت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وحرم عليه) أي على المعتكف اعتكافا واجبا ... (الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر (أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذنا وباب المنارة خارج المسجد

(قوله وحرم إلخ) لأنه إبطال للعبادة وهو حرام - {ولا تبطلوا أعمالكم} [محمد: 33]- بدائع...

(قوله وغسل) عده من الطبيعية تبعا للاختيار والنهر وغيرهما وهو موافق لما علمته من تفسيرها وعن هذا اعترض بعض الشراح تفسير الكنز لها بالبول والغائط بأن الأولى تفسيرها بالطهارة ومقدماتها ليدخل الاستنجاء والوضوء والغسل لمشاركتها لهما في الاحتياج وعدم الجواز في المسجد اهـ فافهم".

(کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج:2، ص:444، ط:ایچ ایم سعید)

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي میں ہے:

"ولا بأس أن يأكل المعتكف في المسجد، ويضع سُفْرة كيلا يلوث المسجد، ويغسل يده في الطست، ولا يجوز أن يخرج لغسل يده؛ لأن من ذلك بداً".

(الباب الثالث الصیام، الفصل الثانی الاعتکاف، المبحث الرابع: ما يلزم المعتكف وما يجوز له، ج:3، ص:1771، ط:دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فيظهر من بحث ابن الهمام لزوم الاعتكاف المسنون بالشروع وإن لزوم قضاء جميعه أو باقيه مخرج على قول أبي يوسف أما على قول غيره فيقضي اليوم الذي أفسده لاستقلال كل يوم بنفسه".

(کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ج:2، ص:444، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں