بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کارتوس کے گول چھروں سے زخمی ہونے والے جانور کے حلال و حرام ہونے کا حکم


سوال

بندوق میں جو کارتوس ہوتے ہیں، اس میں گول چھرے استعمال ہوتے ہیں،اور وہ بارود کے زور سے جانور کو لگتے ہیں،اور اس کی وجہ سے وہ جانور زخمی ہوتا ہے،تو اگر کارتوس کے گول چھرے لگنے سے شکار زخمی ہوجائے اور ذبح کرنا ممکن نہ ہوتو ایسا شکار حلال کہلائے گایا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شکار کیے ہوئے جانور کے حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو کسی  دھار دار چیز سے زخمی کیا گیا ہو،اور اس جانور کی موت،یقینی طور پر،اس دھار والی چیز سے لگے ہوئے زخم سے ہی واقع ہوئی ہو۔

صورتِ مسئولہ میں،جانور کو جس گول چھرّے سے زخمی کرکے شکار کیا جارہا ہے،وہ چوں کہ دھار دار نہیں ہے،اور وہ جانور، بندوق اور کارتوس کے زور اور اس  چھرے کے بوجھ کی وجہ سے،زخمی ہورہا ہے،لہذا،ایسی صورت میں جانور،اگر بغیر ذبح کیے، اسی گولی  کے زخم سے مرجائے تو وہ حلال نہیں ہوگا،تیرکےعلاوہ ہراس  گولی کا یہی حکم ہے جو کہ دھار والی نہ ہو،چاہے وہ نوک دار ہو یا گول ہو۔

"رد المحتار علي الدر المختار" میں ہے:

"أو بندقة ثقيلة ذات حدة لقتلها بالثقل لا بالحد، ولو كانت خفيفة بها حدة حل؛ لقتلها بالجرح، ولو لم يجرحه لا يؤكل مطلقا."

قوله: ‌ولو ‌كانت ‌خفيفة، يشير إلى أن الثقيلة لا تحل وإن جرحت. قال قاضي خان: لا يحل صيد البندقة والحجر والمعراض والعصا وما أشبه ذلك وإن جرح؛ لأنه لا يخرق إلا أن يكون شيء من ذلك قد حدده وطوله كالسهم وأمكن أن يرمي به؛ فإن كان كذلك وخرقه بحده حل أكله، فأما الجرح الذي يدق في الباطن ولا يخرق في الظاهر لا يحل لأنه لا يحصل به إنهار الدم... ولا يخفى أن الجرح بالرصاص إنما هو بالإحراق والثقل بواسطة اندفاعه العنيف إذا ليس له حد فلا يحل. وبه أفتى ابن نجيم."

(كتاب الصيد،ج:6،ص:471،ط:سعيد)

"تبيين الحقائق"میں ہے:

"ولو رماه بعود مثل العصا ونحوه لا يحل؛ لأنه قتله ثقلا لا جرحا إلا إذا كان له حد فبضع بضعا فيكون كالسيف والرمح والأصل في جنس هذه المسائل أن الموت إذا حصل ‌بالجرح ‌بيقين حل، وإن حصل بالثقل أو شك فيه فلا يحل حتما أو احتياطا."

(كتاب الصيد،ج:6،ص:59،ط:دار الکتاب الإسلامي)

"ألفتاوي الهندية"میں ہے:

"ولا يؤكل ما أصابه المعراض بعرضه، ولا يؤكل ما أصابته البندقة فمات بها كذا في الكافي وكذا إن رماه بحجر، وإن جرحه إذا كان ثقيلا، وبه حدة؛ لأنه يحتمل أنه قتله بثقله، وإن كان الحجر خفيفا وبه حدة حل لأن الموت بالجرح، وإن كان الحجر خفيفا وجعله طويلا كالسهم، وبه حدة حل...ولو رماه بعصا أو بعود حتى قتله حرم؛ لأنه قتله ثقلا لا جرحا إلا إذا كان له حد يبضع بضعا فحينئذ يحل لأنه كالسيف والرمح  والأصل في هذه المسائل أن الموت إذا أضيف إلى الجرح قطعا حل الصيد، وإن أضيف إلى الثقل قطعا حرم، وإن وقع الشك، ولم يدر أنه مات بالثقل أو بالجرح حرم احتياطا."

(كتاب الصيد،الباب الرابع،ج:5،ص:425،ط:دار الفکر،بیروت)

"معارف القرآن" میں مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

"اور جو تیر شکار کو اس طرح قتل کردے کہ دھار کی طرف سے نہ لگے ویسے ہی ضرب سے مر جائے وہ بھی موقوذہ میں داخل ہوکر حرام ہے۔۔۔ جو شکار بندوق کی گولی سے ہلاک ہوگیا ہو،اس کو بھی فقہاء نے موقوذہ میں داخل اور حرام قرار دیا ہے،امام جصاص نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے ’’ألمقتولة بالبندقة تلك الموقوذة‘‘ یعنی بندوق کے ذریعے جو جانور قتل کیا گیا ہے وہ ہی موقوذہ ہے، اس لیۓ حرام ہے،امام ابو حنیفہ،شافعی، مالک رحمہم اللہ وغیرہ، سب اس پر متفق ہیں۔"

(پارہ:6،سورۃ المائدہ،آیت:3،ج:3،ص:27)

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں