میرے شوہر عرصہ 6 سال کی بیماری کے بعد 10 دن قبل انتقال کر گئے ہیں، میں اپنے گھر کا نظام اپنی دو بچیوں کے ساتھ مل کر چلا رہی تھی ،ادارے سے بغیر تنخواہ کےچھٹی مل سکتی ہے ،لیکن اس صورت میں تنگدستی کا اندیشہ ہے ؛کیوں کہ 11 نومبر تک بغیر تنخواہ کے نظام چلانا مشکل ہو گا ،جب کہ دو بچے زیر تعلیم ہیں جن کی فیس سمسٹر کے حساب سے ستمبر میں ادا کرنا ہو گی ،اس صورت میں عدت کا کیا حکم ہو گا مجھے زیادہ سے زیادہ ادارے کی جانب سے چہلم تک چھٹی مل سکتی ہے۔
واضح رہے کہ عدت کے دوران عورت کو بغیر شدیدجانی ومالی نقصان کے اندیشہ کے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے ؛ لہذا اگر سائلہ اپنی ملازمت سے رخصت لے کر عدت کے ایام گھر پر گزارسکتی ہیں ،تو عدت میں ملازمت کے لیے جاناجائزنہیں،اور اگر خرچ کاکوئی انتظام نہ ہو ،صرف ملازمت ہی کی صورت میں خرچ چل سکتاہے ،تو ایسی صورت میں دن کے وقت میں بقدر ضرورت جانے کی اجازت ہوگی اور رات سے پہلے پہلے واپس اپنے گھر پر پہنچناضروری ہوگا۔
"سنن أبي داود" میں ہے:
"عن ابن جريج، أخبرني أبو الزبير عن جابر، قال: طلقت خالتي ثلاثا، فخرجت تجد نخلا لها فلقيها رجل، فنهاها، فأتت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال لها: "اخرجي فجدي نخلك لعلك أن تصدقي منه أو تفعلي خيرا."
(أول كتاب الطلاق، باب في المبتوتة تخرج بالنهار، رقم الحدیث:2297، ج:3، ص:604، ط:دار الرسالة العالمية)
"البحرالرائق" میں ہے:
''(قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلا ولا نهارا. والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير.''
(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الإحداد، ج:4، ص:166، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاویٰ شامی میں ہے :
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."
(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد، ج:3، ص:536، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144412100748
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن