بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ عدت حیض بند ہوجانا


سوال

میری عمر 51 سال ہے،مجھے13جولائی کو تین طلاقیں واقع ہوچکی تھیں اور میں اب تک عدت میں وقت گزار رہی ہوں،طلاق واقع ہونے سے پہلےہی میری ماہواری آنے کی تاریخ میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی تھی،کبھی دوماہ بعد،کبھی ڈھائی ماہ بعداورکبھی3ماہ بعد ماہواری آتی تھی،13جولائی کو طلاق واقع ہوئی تو اس کے بعداکتوبرکی پہلی تاریخ کو ماہواری آئی اور تین دن بعد میں پاک ہوگئی،طلاق واقع ہونے کے بعد بس ایک ہی ماہواری آئی ہےاور اب 4ماہ سے کچھ دن اوپر ہوچکے ہیں لیکن مجھے ماہواری نہیں آئی۔

واضح رہے کہ میں نے لیڈی ڈاکٹر سے مشورہ بھی کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ کو جو  مختلف وقتوں میں ماہواری ہوئی ہے،یہ ماہواری بندہونے کی علامت ہےاور آپ کو کوئی تکلیف بھی نہیں تو میں آپ کو ماہواری جاری کرنے کی دوائی نہیں دے سکتی،لیکن اس نے یقینی طور پر یہ نہیں بتایا کہ میری ماہواری مکمل طور پر بند ہوگئی ہے یا نہیں۔

لہذا اس مسئلہ میں میری رہنمائی فرمائیں کہ میں کس طرح اپنی عدت مکمل کروں؟کیوں کہ میں عدت مکمل کرنے کے بعد دوسرےشخص سے نکاح کرکے اس سےطلاق کے بعد اس کی عدت مکمل کرکے دوبارہ اپنے پہلے شوہر اور بچوں کے پاس جانا چاہتی ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ جس عورت کو ماہواری آنا بند ہوگئی ہویا بہت مدت کے بعد آتی ہوتو فقہ حنفی میں ایسی عورت کے آئسہ(یعنی ماہواری آنے سے ناامید)ہونے کے لیے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔اس کی عمر پچپن سال ہوچکی ہو،کیوں کہ اس مدت کے اندر کسی بھی وقت ماہواری آسکتی ہے۔

2۔اس کی ماہواری کو بند ہوئے چھ ماہ یا اس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہو،البتہ یہ چھ ماہ پچپن سال عمرہونے کےبعد  گزرنا ضروری نہیں،بلکہ اگر پچپن سال عمر ہونےسے پہلے ہی ماہواری کو بندہوئے چھ ماہ  گزر گئے ہوں،تو  پچپن سال عمر ہوتے ہی آئسہ ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں جب تک سائلہ سنِ ایاس یعنی پچپن سال کی عمر تک نہیں پہنچ جاتی،تو سائلہ کا شمار ذوات الحیض(حیض کے اعتبار سے عدت گذارنے والی) عورتوں میں ہوگا،یعنی اس کی عدت  مکمل تین ماہورایاں  گزرنے کے بعد ہی پوری ہوگی،اس صورت میں سائلہ کو چاہیے کہ کسی ماہر ڈاکٹر کے مشورہ سے بذریعہ علاج معالجہ یا جلدی ماہواری جاری کرنےکی دوائی وغیرہ کھا کر مزید دو ماہوریاں گزار کراپنی عدت مکمل کرلے۔

اس کے باوجود اگرسائلہ کو پچپن سال کی عمر تک ماہواری نہ آئےاورپچپن سال عمر ہونے سے پہلے ہی اس کی ماہورای کو بند ہوئے چھ ماہ یا اس سے زیادہ گزر چکے ہوں تو پھر سائلہ کا شمار ذوات الاشہر(مہینوں کے اعتبار سے عدت گذارنے والی)عورتوں میں ہوگا،یعنی پچپن سال عمر ہونے کے بعدسائلہ پر نئے سرے سے تین ماہ عدت  گزارنا لازم ہوگا۔

البتہ اگر  سائلہ کی عمر پچپن سال ہوجائے، لیکن اس کی ماہواری کو بند ہوئے چھ  ماہ نہ  گزرنے ہوں تو پھرسائلہ کی عدت اس وقت شروع ہوگی کہ ماہواری کو بند ہوئے چھ ماہ  گزر جائیں اورپھر اس کے بعدتین ماہ  بعد گزرنے سے سائلہ کی عدت پوری ہوگی۔لیکن یہاں ایک بات یاد رہے کہ مہینوں کے اعتبار سے عدت  گزارنے کے دوران اگر سائلہ کو ماہواری آگئی تو پھر اس پر نئے سرے سے مکمل تین ماہواریاں گزار کر اپنی عدت مکمل کرنا ضروری ہوگا۔

باقی مذکورہ صورت میں اگر سائلہ کے لیے پچپن سال کی عمر تک انتظار کرنا مشکل ہواور علاج معالجہ یادوائی وغیرہ سے بھی اس کی ماہواری جاری نہ ہوتو سخت مجبوری کی صورت میں مذہبِ مالکیہ پر عمل کیا جاسکتا ہے،یعنی حیض بند ہونے کے بعدایک سال عدت  گزار کر دوسری جگہ نکاح کیا جاسکتا ہے،البتہ اس صورت میں بھی اگر ایک سال کے اندر ماہواری آگئی تو نئے سرے سے تین ماہواریاں گزار کر عدت مکمل کرنا ضروری ہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

"و عندنا ما لم تبلغ حد الإياس لا تعتد بالأشهر وحده خمس وخمسون سنة هو المختار لكنه يشترط للحكم بالإياس في هذه المدة أن ينقطع الدم عنهامدة طويلة وهي ستة أشهر في الأصح ثم هل يشترط أن يكون انقطاع ستة أشهر بعد مدة الإياس، الأصح أنه ليس بشرط حتى لو كان منقطعا قبل مدة الإياس ثم تمت مدة الإياس وطلقها زوجها يحكم بإياسها وتعتد بثلاثة أشهر هذا هو المنصوص في الشفاء في الحيض وهذه دقيقة تحفظ اه."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:516، ط:سعيد)

النہر الفائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"التي حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ.قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة."

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:2، ص:476، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن كانت آيسة فاعتدت بالشهور، ثم رأت الدم انتقض ما مضى من عدتها، وعليها أن تستأنف العدة بالحيض ومعناه إذا رأت الدم على العادة؛ لأن عودها يبطل الإياس هو الصحيح كذا في الهداية."

کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر، ج:1، ص:529، ط:رشیدیه)

احسن الفتاوی میں ہے:

"جس عورت کو  شروع سے ہی بالکل حیض نہ آیا ہو،اس کی عمر تیس سال ہوجانے پر وہ آئسہ شمار ہوگی اور اگر حیض آنے کے بعد باکل بند ہوگیایا بہت مدت کے بعد آتا ہو تو یہ پچپن سال کی عمر ہونے پرآئسہ ہوگی،دونوں قسم کی آئسہ کی عدت تین مہینے ہے،مگر صورتِ ثانیہ میں یہ شرط ہے کہ کم از کم چھ ماہ سے حیض بند ہو،یہ چھ ماہ کی مدت پچپن سال کی عمر پوری ہونے سے قبل گزر چکی ہو تو وہ بھی معتبر ہے،یعنی اس صورت میں پچپن سال پورے ہونے کے بعد تین ماہ گزرنے پر عدت پوری ہوجائے گی،دونوں قسم کے ایاس میں اگر عدت کے تین ماہ پورے ہونے سے قبل حیض جاری ہوگیا،تو از سر نو عدت تین حیض پوری کرے،اگر سنِ ایاس سے قبل عدت کی نوبت آجائے تو بذریعہ علاج حیض جاری کرکے تین حیض عدت پوری کرے،اگر کسی علاج سے بھی حیض جاری  نہ ہو تو بوقتِ ضرورت کسی مالکی قاضی سے ایک سال کی  عدت کا فیصلہ کرایا جائے،اگر مالکی قاضی میسر نہ ہو اور ضرورتِ شدیدہ ہوتو بدونِ قضا بھی ایک سال کی عدت کا فتوی دیا جاسکتا ہے۔"

(ج:4،ص:436،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں