بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوران ہمبستری برہنہ ہونا


سوال

حدیث شریف میں ہے کہ دوران ہمبستری میاں بیوی دونوں کو مکمل برہنہ نہیں ہونا چاہیے، تو کیا ایسے کر سکتے ہیں کہ انٹرکورس سے پہلے دونوں میاں بیوی کپڑے اتارے اور ایک دوسرے کے بدن کے جس حصے کو بھی چاہیں دیکھے یا چھو لے یا چھوم لے، اور پھر جب انٹرکورس شروع کرے تو کوئی کمبل یا چادر وغیرہ اپنے اوپر اوڑھ لیں۔ یا کیا اس طرح کرنے کی اجازت ہوگی کہ دونوں مکمل برہنہ ہوں لیکن کمرے میں روشنی بہت کم ہو یعنی ڈِم لائٹ صرف آن ہو اور اس دوران پھر ہمبستری کریں؟

جواب

 بصورتِ مسئولہ   بیوی سے  صحبت  کرتے وقت  کمرے میں اندھیرا ہونا یا چادر اوڑھنا ضروری نہیں، البتہ میاں بیوی کاایک دوسرے کی شرم گاہ کو دیکھنا غیرمناسب ہے، اور نسیان کی بیماری کا سبب بنتاہے؛  لہذا اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ نیز بالکل برہنہ ہو کر ہم بستر ہونا جائز تو ہے، لیکن  مناسب نہیں ہے، احادیثِ  مبارکہ  میں  جماع کے دوران  برہنہ ہونے اور  بیوی کے پاس مکمل برہنہ ہو کر جانے کی ممانعت ہے  ،   یہ مطلب نہیں کہ صرف  دوران ہمبستری برہنہ ہونا منع ہے     ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:

"مانظرت أو ما رأیت فرج رسول الله صلى الله علیه وسلّم قط."

[سنن ابن ماجہ:138،ابواب النکاح،ط:قدیمی]

ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر کی طرف کبھی نظرنہیں اٹھائی، یا یہ فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سترکبھی نہیں دیکھا۔

اس حدیث کے ذیل صاحب مظاہرحق علامہ قطب الدین دہلویؒ لکھتے ہیں:

"ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے یہ الفاظ ہیں کہ :

"نہ تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ستر کبھی دیکھا اور نہ کبھی میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ستر دیکھا۔"

ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ اگرچہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کاستر دیکھ سکتے ہیں، لیکن آدابِ زندگی اور شرم و حیا کا انتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہر اور بیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کاسترنہ دیکھیں۔"

[مظاہرحق،3/262،ط:دارالاشاعت کراچی]

دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"إذا أتى أحدكم أهله فليستتر ولايتجرّد تجرّد العيرين."

[سنن ابن ماجه : ابواب النکاح، ص: 138، ط: قدیمی]

ترجمہ: جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے تو پردے کرے، اور گدھوں کی طرح ننگانہ ہو۔ (یعنی بالکل برہنہ نہ ہو)۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں