بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دور سے آئے ہوئے رشتہ داروں کا میت کے گھر کھانا کھانے کا حکم، سوئم، چالیسواں اور برسی کا حکم


سوال

بعض علاقوں میں یہ ترتیب ہوتی ہے کہ جب کسی کے ہاں فوتگی ہوجائے،تو مرحوم کے عزیز و اقارب اور دور دراز کے رشتہ دار ان کے ہاں آتے ہیں اور تقریباً4،5دن ان کے ہاں ٹھہرتے ہیں،اس عرصہ میں وہ رشتہ دار مرحوم کے گھر میں کھانا کھاتے ہیں،کیا شرعا یہ کھانا جائز ہے؟اگر کھانے کا انتظام اہلِ محلہ کریں اور محلہ والے اس شرط پر کھانا پکاتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاں فوتگی ہوجائے تو آپ بھی کھانے کا انتظام کرو گے اور اگر کوئی کھانے کا انتظام نہ کرے تو ان سے قطع تعلق کیا جاتا ہے،اس کا شرعی حکم کیا ہے؟کھانے پر تقریباً ایک لاکھ تک خرچہ آتا ہے جو لوگوں کے بس میں نہیں۔

(2)کچھ مخصوص گھرانے ہوتے ہیں،جو مرحوم کے اہل خانہ کے لیے پیسے جمع کرتے ہیں،چاہے کسی کے پاس ہو یا نہ ہو ،شرم کے مارے دینے پڑتے ہیں اور اس رقم سے پھر مرحوم کے اہلِ خانہ تیسرے،چوتھے یا پانچویں دن خیراتی کھانا بنا کر لوگوں کو کھلاتے ہیں،مذکورہ صورت میں ہر گھرانہ تقریباً دس ہزار روپے جمع کرتا ہے،بعض لوگوں کے پاس پیسے نہ ہوں تو کسی سے قرض لے کر یا اپنی کوئی چیز مثلا زیور وغیرہ فروخت کرکے رقم دیتے ہیں،ورنہ لوگ طعنہ دیتے ہیں اور قطع تعلق کرتے ہیں۔

(3)فوتگی کے چالیسویں دن،ساتویں دن،یا ایک سال بعد لوگ خیراتی کھانا بنا کر لوگوں کو کھلاتے ہیں،اس کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں مہمان کے لیے کسی کے ہاں مہمان بننے کے آداب مذکور ہیں،چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے،اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی تعظیم و خاطر داری کرے،مہمان کے ساتھ تکلف و احسان کرنے کا زمانہ ایک دن اور ایک رات ہے اور مہمان داری کرنے کا زمانہ تین دن ہے،اس (تین دن کے بعد جو دیا جائے گا وہ )ہدیہ و خیرات ہوگا،اور مہمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں (تین دن کے بعد اس کی استدعا کے بغیر )ٹھہرے کہ وہ تنگی میں مبتلا ہوجائے۔

(مظاہر حق،ج:4،ص:ٍ116،ط:دار الاشاعت)

نیزقریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں  کے لیے مستحب ہے کہ میت کے گھر والوں اور ان کے ہاں دور دراز سے آئے مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کریں،چنانچہ حدیث مبارک میں ہےکہ جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان پر ایسی مشکل گھڑی آئی ہے جس نے انہیں دیگر کاموں سے مشغول کردیا ہے۔

(1)صورتِ مسئولہ میں اول توقریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ میت کے گھر والوں اور ان رشتہ داروں کے لیے جو دور دراز سے آئے ہوئے ہوں ان کے لیے ایک دن اور ایک رات کھانے کا انتظام کریں تاہم ان  پر میت کے گھر آنے والے دور دراز کے رشتہ داروں کے لیے کھانے کا انتظام کرنا لازم نہیں ہے،اگر یہ انتظام وہ اپنے طرف سے بطور تبرع کریں تو یقیناً اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے،لیکن میت کے گھر کھانا بھیجنے کو لازم سمجھنا اور اس عمل کے نہ کرنے والوں کو طعنے دینا یا ان سے قطع تعلقی کرنادرست نہیں ہے۔

(2)کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا جائز نہیں،اسی طرح بغیر رضامندی کے لوگوں سے چندہ کرنا بھی جائز نہیں ہے اور اس چندے کی رقم سے اہل میت کا خیراتی کھانا پکا کر لوگوں کو کھلانا بھی جائز نہیں ہے۔

(3)فوتگی کے تیسرے،چالیسویں دن اور سال بعد جو کھانا کھلایا جاتا ہے،جسے سوئم،چالیسواں اور برسی کہتے ہیں ،شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے،یہ صرف رسومات ہیں جن کوموجودہ زمانے میں لوگوں نے دین کا حصہ سمجھ لیا ہے،یہ رسومات بہت سے منکرات کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے مکروہ اور ناجائز ہیں۔

صحیح البخاری میں ہے:

"عن أبي شريح الكعبي: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، جائزته يوم وليلة، والضيافة ثلاثة أيام، فما بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه."

(کتاب الآداب،باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ،ج:8،ص:32،ط:سلطانیہ بالمبطعۃ الکبری الامیریۃ)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(ولا يحل له) : أي للمضيف (أن يثوي) : بفتح الياء وسكون المثلثة وكسر الواو من الثواء وهو الإقامة أي يقيم (عنده) : أي عند مضيفه بعد ثلاثة أيام بلا استدعائه (حتى يحرجه) : بتشديد الراء أي يضيق صدره ويوقعه في الحرج."

(کتاب الأطعمۃ،باب الضیافۃ،ج: 7،ص:2732،ط:دار الفکر)

العرف الشذی شرح سنن الترمذی میں ہے:

"يستحب للجيران والأقرباء صنع الطعام لأهل الميت، وفي عامة كتبنا أن ما في زماننا أكل الطعام من بيت أهل الميت فبدعة، وفي فتح القدير رواية أخرجها من مسند أحمد تدل على المنع من أكل الطعام من بيت أهل الميت وسندها قوي."

(کتاب الجنائز،باب ما جاء فی الطعام یصنع لاہل المیت،ج:2،ص:314،ط:دار التراث العربی)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع الخ."

(باب صلاۃ الجنازۃ،ج:2،ص:240،ط:سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"اہل میت کے گھر ضیافت کھانے کی جو رسم پڑگئی ہے یہ یقینا واجب الترک ہے،صرف اہل میت کے وہ عزیز و اقارب جو دور دور سے آئے ہوں اور ان کی امروز واپسی نہ ہوسکےیا اہل میت کی تسلی کے لیے ان کا قیام ضروری ہو وہ میت کے گھر کھانا کھالیں تو خیر،باقی تمام تعزیت کرنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا چاہیے،نہ میت کے گھر قیام کریں نہ ضیافت کھائیں۔"

(کتاب الجنائز،ج:4،ص:123،ط:دار الاشاعت)

وفیہ ایضا:

"ایصال ثواب  کے لیے فقراء و مساکین کو صدقہ و خیرات دینا جائز ہے،برادری کو کھانا کھلانا،اور تیجہ چالیسواں ان رسوم کو ادا کرنا بدعت ہےالخ."

(کتاب الجنائز،ج:4،ص:131،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں