بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دور حاضر میں حجامہ کی اجرت کا حکم


سوال

 عرض یہ کہ حدیث کی رو سے دورِ اول میں حجامہ کی اجرت کو غیر افضل قرار دیا گیاتھا ،اس لیےکہ اس زمانےمیں  (حجامہ کی صورت یہ ہوتی تھی کہ )منہ سے خون چوسا جاتا تھا، نیز روزہ کے فاسد ہوجانے کی بات بھی حدیث میں آئی ہے ،لیکن دورِ حاضر میں مستقل اس کے آلات ہیں جس سے الائش ِخون کا کوئی اندیشہ نہیں، جو استعمال کے بعد پھینک دئیے جاتےہیں اور سستے بھی ہیں، تو پوچھنا یہ کہ غیر افضل کی علت اس دور میں بھی باقی ہے؟ کیا حجامہ کےلیے جو اشیاء ہم استعمال کرتے ہیں ،جیسے کپ ،ہاتھوں کے دستانے، ٹشو اور دوائیاں اس کے ساتھ اپنی ایک گھنٹے کی محنت کا معاوضہ لینا ہمارے لئے درست ہے؟ یا محنت کی اجرت کو چھوڑ کر فی کپ ایک رقم طے کرکے لیا جائے، تو اس میں کوئی گنجائش نکل سکتی ہے ؟ اور غیر افضل سے کیا مراد ہے ؟ کیا اس اجرت کے استعمال سے ہمارے اعمال یا آخرت پر کوئی اثر پڑے گا؟نیز اس اجرت کو ہم کس جگہ استعمال کرسکتے ہیں اور کس جگہ نہیں کرنا چاہئے؟

جواب

واضح رہےکہ حجامہ کی اجرت کےبارےمیں مختلف احادیث وارد ہوئی ہیں ،کچھ سےاجرت لینےکی کراہت معلوم ہوتی ہےاورکچھ سےجواز ،علمائےکرام نےاس میں  تطبیق یوں دی ہےکہ اجرت کالیناجائزہےلیکن بہترنہیں اوربہترنہ  ہونےکی علت یہ بیان کی ہےکہ یہ پیشہ اختیارکرنااچھانہیں ،کیوں کہ  اس پیشےوالےکومعاشرےمیں اچھانہیں سمجھاجاتاتھا، اوراسی وجہ سےحجامہ   کی اجرت کوابتدائےاسلام میں ناپسند کیاگیاتھا،اس کےبعد اس کی اجرت کواستعمال میں لانےکی اجازت دےدی گئی تھی،جیسےکہ خودابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی  روایت سے معلوم ہوتاہےکہ جب حضور علیہ السلام نے حجام کی کمائی کےبارےمیں فرمایا:کہ یہ بھی حرام میں سےہےتوانصارمیں سےایک آدمی نےآکرعرض کیا،میراایک حجام غلام ہےاور ایک اونٹ ہےجس سےمیں پانی نکالتاہوں،تو کیااس کی کمائی سےمیں اونٹ کوچارہ کھلاسکتاہوں؟آپ نےفرمایا:ہاں،پھرایک اور صحابی آئےاورکہاکہ میرےاہل وعیال ہیں اورمیراایک حجام غلام ہے،توکیامیں اس کی کمائی میں سے اپنےاہل وعیال کوکھلاسکتاہوں؟آپ نےفرمایا:ہاں،اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہےکہ  ابوطیبہ نےحضورعلیہ السلام کوحجامہ لگایا،اورآپ علیہ السلام نے(اجرت کےطورپر)اسےایک صاع کھجوردیئے۔

اگرحجامہ کی اجرت حلال نہ ہوتی توآپ علیہ السلام انہیں ہرگزاجرت نہ دیتے،تواس سےمعلوم ہوا کہ منع والی جوروایت تھی  وہ پہلےتھی،پھروہ منسوخ ہوگئی،لہٰذا سائل اب حجامہ کی اجرت لےسکتاہے،اوراس رقم کواپنےاستعمال میں لاسکتاہےاور اس سے اس کےاعمال پرکوئی اثرنہیں پڑےگا۔

چناں چہ مؤطاامام مالک روایۃ امام محمد بن الحسن الشیبانی میں ہے:

" أخبرنا مالك، حدثنا حميد الطويل، عن أنس بن مالك، قال: حجم أبو طيبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، «فأعطاه صاعا من تمر، وأمر أهله أن يخففوا عنه من خراجه.

قال محمد: وبهذا نأخذ، لا بأس أن يعطى الحجام أجرا على حجامته، وهو قول أبي حنيفة."

(باب كسب الحجام،رقم الحديث:988، ص:342،ط:مكتبة العلميه)

کشف الاسرارعن اصول فخرالاسلام البزدوی:

"وذكر في المبسوط قال مكحول: ‌السنة ‌سنتان ‌سنة ‌أخذها ‌هدى ‌وتركها ‌لا ‌بأس ‌به ‌كالسنن ‌التي ‌لم ‌يواظب ‌عليها ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم. ‌وسنة ‌أخذها ‌هدى ‌وتركها ‌ضلالة ‌كالآذان ‌والإقامة ‌وصلاة ‌العيد."

(اقسام العزيمة ،ج:2، ص:310،ط:دارالكتاب الاسلامي)

کتاب الاصل للامام محمد:

"محمد ‌عن ‌أبي يوسف عن ابن أبي ليلى عن عطاء بن أبي رباح ‌عن ‌أبي ‌هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من السحت عسب التيس ومهر البغي وكسب الحجام"، قال: فأتاه رجل من الأنصار، فقال: إن لي حجاماً وناضحاً، أفلا أعلف ناضحي من كسبه؟ قال: "نعم"، قال: ثم أتاه رجل آخر فقال: إن لي عيالاً وحجاماً، ‌أفأطعم ‌عيالي من كسبه؟ قال: "نعم."

( كتاب الاجارات ،ج:3، ص:432، ط:دارابن حزم،بيروت)

المبسوط للسرخسي :

"نقول هذا النهي في كسب الحجام قد انتسخ بدليل ما ذكره في آخر حديث أبي هريرة رضي الله عنه قال: «فأتاه رجل من الأنصار وقال إن لي حجاما وناضحا أفأعلف ناضحي من كسبه؟ قال: نعم، وأتاه آخر فقال: إن لي عيالا وحجاما أفأطعم عيالي من كسبه؟ قال: نعم» فالرخصة بعد النهي دليل انتساخ الحرمة ودل عليه أيضا حديث ابن عباس رضي الله عنهما قال: «احتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وأعطى الحجام أجره» ولو كان حراما لم يعطه؛ لأنه كما لا يحل أكل الحرام لا يحل إيكاله."

(كتاب الاجارات ،باب كل الرجل يستصنع الشي ، ج:15، ص:84، ط:دار المعرفة ،بيروت)

بدائع الصنائع :

"وتجوز الإجارة للحجامة وأخذ الأجرة عليها؛ لأن ‌الحجامة أمر مباح وما ورد من النهي عن ‌كسب الحجام في الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من السحت عسب التيس وكسب الحجام" فهو محمول على الكراهة لدناءة الفعل والدليل عليه ما روي "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قال ذلك أتاه رجل من الأنصار فقال: إن لي حجاما وناضحا فأعلف ناضحي من كسبه قال صلى الله عليه وسلم: نعم."

(كتاب الاجاره، فصل في انواع شرائط الركن الاجارة،ج:4، ص:190،ط:دار الكتب العلمية)

تبيين الحقائق :

"قال رحمه الله (والحجام) أي جاز أخذ أجر الحجامة لما روي "أنه عليه الصلاة والسلام احتجم وأعطى أجرته" ولأنه جرى التعارف بين الناس من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا فانعقد إجماعا عمليا، وقالت الظاهرية لا يحل لما روي أنه عليه الصلاة والسلام "نهى عن عسب التيس وكسب الحجام وقفيز الطحان" قلنا هذا الحديث منسوخ بما روي أنه صلى الله عليه وسلم ؛قال له رجل إن لي عيالا وغلاما حجاما أفأطعم عيالي من كسبه قال نعم."

(كتاب الاجارة، باب اجارة الفاسدة،ج:5، ص:124،ط:دار الكتاب الاسلامي)

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144508102283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں