بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسروں کی چیز اجازت کے بغیر استعمال کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد نے مجھے کچھ پیسے دیئے اور کہا کہ یہ لو اور جو چاہو اپنے لیے اس سے کرلو، میں نے ان پیسوں سے ایک فلیٹ خریدا، اور فلیٹ میں نے اپنے نام رجسٹر کروایا، پھر کچھ عر صہ بعدمیں اپنی فیملی کے ساتھ اس فلیٹ میں شفٹ ہوگئی، لیکن ڈیڑھ سال کے بعدبچوں کی تعلیمی وجوہات کی بنا ء پر میں اپنے  پہلے رہائشی مکان(جو گلبہار میں واقع ہے) منتقل ہوگئی، اور اپنا یہ فلیٹ، اپنے والد کی نگرانی میں چھوڑدیا کہ وہ اس کی نگرانی کرے، کرائے اور تمام بلز کی ذمہ داری  ان کو سونپ دی(یہ تمام معاملات میرے والد کی زندگی میں ہی ہوئے، والد صاحب ابھی بھی حیات ہیں)۔

پھر کچھ عرصہ بعد میرے والد نے میری چھوٹی بہن کو وہاں شفٹ کرادیا، میں نے  چھوٹی بہن سے کہا کہ : میرا فلیٹ خالی کروادو، تو انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے والد نے بٹھایاہے، اب وہ زبردستی قابض ہوچکےہیں،اور میرے والد بھی ان کی طرف داری کررہے ہیں، اور میری چھوٹی بہن کاشوہر بار بار دھمکیاں دے رہاہے کہ اگر فلیٹ خالی کرنے کو کہا: تو میں تمہارے پیر توڑدوں گا اور کئی طرح کی بھی دھمکیاں دے رہا ہے اور  وہ بہن تین سال سے کرایہ بھی نہیں دے رہی ہے۔

چھوٹی بہن  کا اس طرح قبضہ کرنا، کرایہ نہ دینا اور طرح طرح کی دھمکیاں دیناشریعت کے روسے جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب سائلہ کے والد نے  پیسے دیتے ہوئے    سائلہ کو یہ  کہا: "یہ لو اور جو چاہو اپنے لیے  اس سے کرلو"   اور سائلہ نے اس رقم کو لے کر اس سے اپنے لیے   فلیٹ   خریدلیاہے، تو شرعا یہ   فلیٹ سائلہ ہی کا ہے۔

ولد صاحب کا سائلہ کی اجازت کے بغیر چھوٹی بہن کو اس مکان میں رہائش دینا درست نہیں تھا اور پھر بہن کا اس مکان پر قبضہ کرکے بیٹھ جانا اور مالک کے مطالبہ پر خالی نہ کرنا اور کرایہ بھی نہ دینا شرعا ناجائز اور حرام ہے، سائلہ نے یہ مکان والد کی نگرانی میں دیاتھا اور والد نے چھوٹی بہن کو رہائش دی تھی، تو اب والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مکان کو چھوٹی بیٹی سے خالی کرانے کی کوشش کریں اور سائلہ کو اس کا مکان واپس دلوادیں، نیز بہن اور اس کے شوہر کا مکان غصب کرکے دھمکیاں دینا غیر شرعی عمل  ہے جس کی تلافی ضروری ہے  ور نہ  یہ عمل آخرت میں سخت پکڑ کا باعث ہوگا،  رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:"خبردار کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو، خبردار کسی آدمی کی ملکیت کی کوئی چیز اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے"، اسی طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد  ہے کہ"جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی ازراہِ ظلم لے گا قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی زمین اس کے گلے میں بطورِ طوق ڈالی جائے گی۔"

 صحیح بخاری  میں ہے:

"عن ‌سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل : أنه «خاصمته أروى في حق زعمت أنه انتقصه لها إلى مروان فقال سعيد: أنا أنتقص من حقها شيئا أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ‌من ‌أخذ ‌شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»."

[كتاب بدأ الخلق، ج:4، ص:107،المطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر.]

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " «‌ألا ‌لا ‌تظلموا، ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني(إلا بطيب نفس ) أي: بأمر أو رضا منه."

[باب الغصب والعارية، ج:5، ص:1974، ط: دار الفكر.]

تبیین الحقائق میں ہے:

"وهي مشروعة مندوب إليها بالإجماع وشرطها أن يكون الواهب عاقلا بالغا حرا والموهوب له مميزا والموهوب مقبوضا وركنها الإيجاب والقبول وحكمها ثبوت الملك للموهوب له."

[كتاب الهبة، ج:5، ص:91، ط:المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة.]

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"ألفاظ الهبة: يصح إيجاب الواهب بلفظ: وهبتك هذا الشيء أو ما يفيد معناه في إفادة التمليك بلا ثمن، كقوله: أعطيتك هذا الشيء، أو نحلته لك أو أهديتكه، أو أطعمتك هذا الطعام  أو غير ذلك مما يراد به الهبة وهذا باتفاق ...أما القبول فإنه يصح بكل قول أو فعل يشعر بالرضا من جانب الموهوب له كقوله: قبلت، ورضيت، أو يأخذها بدون لفظ."

[ج:42، ص:135، ط: دار السلاسل]

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

[كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100923

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں