میرے بہنوئی کے دو بیٹے ہیں۔ میری بہن کے انتقال کے بعد میری شادی اپنے بہنوئی سے ہوئی۔ شادی کے بعد میرے شوہر (یعنی بہنوئی) نے ایک مکان میرے نام کر دیا، اور مجھے اس کا مکمل قبضہ، ملکیت اور تمام اختیارات دے دیےاورمرحوم شوہراس میں نہیں رہتاتھا،بلکہ ہم اپنے دوسرے گھرمیں رہتے تھے جومذکورہ مکان سے الگ تھا۔
میرے شوہر کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ درج ذیل چیزوں پر مشتمل ہے:-دو مکانات ،ایک کارخانہ ،ایک دکان۔
میں نے اپنی بہن کے دونوں بیٹوں کی شادی کر دی۔ چھوٹے بیٹے کو کرائے والے مکان (جس کو ہم نے کرایہ پردیاتھا ) میں منتقل کیا، اور بڑا بیٹا میرے ساتھ رہنے لگا۔
بعد میں میرے اسی بڑے بیٹے نے میری رضامندی سےمیرے اس مکان (جو میرے شوہر نے میری ملکیت میں دیا تھا) کو بیچ کر ایک نیا مکان خریدا، لیکن اس پرقبضہ کرکے اپنے نام پر کروا لیا۔ بعد ازاں، گھر کے جھگڑوں کی وجہ سے بڑا بیٹا اسی نئے مکان میں منتقل ہوگیا، اور طے پایا کہ وہ کارخانے کے کرایہ میں سے مجھے ہر ماہ 35,000 روپے دے گا۔
اب آٹھ ماہ کے بعد وہ اس وعدے سے مکر گیا ہے اور مجھے کوئی رقم نہیں دے رہا۔
سوالات:
1۔ میرے بڑے بیٹے نے جو میرے ذاتی مکان کو بیچ کرایک نیا مکان خریدااور اس پرقبضہ کیا، کیا اس کا یہ عمل شرعاً درست ہے؟
2۔کیا مجھے شوہر کی جائیداد میں (مکان، کارخانہ، دکان وغیرہ میں) کوئی شرعی حصہ ملے گا؟ اگر ہاں، تو کتنا؟
3۔کارخانے کے کرایے میں کیا میرا کوئی شرعی حق بنتا ہے؟
واضح رہے کہ کسی کے مال پر بلا شرعی سبب قبضہ کرنا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کے بیٹے کا سائلہ کے ذاتی مکان (جو اس کے شوہر نے اس کومالکانہ قبضہ کےساتھ دیدیاتھا) پر قبضہ کرنا اور اسے اپنے نام منتقل کروانا شرعاً ناجائز و حرام ہے۔ یہ مکان سائلہ کی ملکیت شمار ہوگا اور ان کا ذاتی مال ہے۔
جہاں تک شوہر کے انتقال کے بعد ترکہ کا تعلق ہے، تو سائلہ شرعاً اپنے شوہر کے ترکہ میں حق دار ہے۔ شریعت مطہرہ کے مطابق:سب سے پہلے شوہر کے ترکہ میں سے تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں گے۔اس کے بعد اگر مرحوم پر کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا۔پھر اگر مرحوم نے کوئی شرعی وصیت کی ہو (جو ترکہ کے ایک تہائی سے زائد نہ ہو)، تو وہ وصیت پوری کی جائے گی۔ان تین امور کے بعد جو ترکہ بچے گا، اس میں سائلہ کو آٹھواں (1/8) حصہ ملے گا کیونکہ مرحوم کی اولاد موجود ہے۔
اسی طرح شوہر کی ملکیت میں موجود کارخانے کے کرایے میں بھی سائلہ کا شرعی حصہ بنتا ہے، کیونکہ وہ بھی ترکہ کا حصہ ہے۔ اس میں بھی سائلہ کو باقی ورثاء کے ساتھ آٹھواں حصہ ملے گا۔
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"المادة: لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(المقالة الثانیة،ج:1،ص:98،ط:دار الجيل)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"وللزوجة الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع والثمن وعليه الإجماع، كذا في الاختيار شرح المختار."
(کتاب الفرائض،الباب الثانی،ج:6،ص:450،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(فشركة الملك) أن يشترك رجلان في ملك مال، وذلك نوعان: ثابت بغير فعلهما كالميراث، وثابت بفعلهما، وذلك بقبول الشراء، أو الصدقة أو الوصية. والحكم واحد، وهو أن ما يتولد من الزيادة يكون مشتركا بينهما بقدر الملك."
(کتاب الشرکة، ج: 11، ص : 151، ط: مطبعة السعادة - مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101373
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن