بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کرنے کا مشورہ


سوال

 میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں ، جن خاتون سے میری بات ہوئی ہے وہ طلاق یافتہ ہیں اور ان خاتون کی ایک بیٹی ہے ؛ جو چودہ سال کی ہے بارہ سال پہلے انہیں طلاق ہوئی تھی،  میری ان خاتون سے بات ہوئی ہے  کہ میں ان کو وقت  کی بنیاد پہ برابری نہیں دے سکتا؛  لیکن جسمانی اور مالی اعتبار سے ان کو ان شاء اللہ کوئی پریشانی نہیں ہو گی، تو وہ اس بات پر تیار ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ کوئی گھر جو  ان کے  میکے کے قریب ہو،  ان کی  ملکیت کر دوں، جس کی مالیت تقریباً پچاس لاکھ کی ہے؛ تاکہ وہ وقار کے ساتھ بغیر کسی پریشانی کے اپنے گھر میں رہ سکیں،اس طرح کی شرط طے کر کے شادی کرنے میں کوئی مضائقہ تو نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے  جہاں مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے  وہاں مرد کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان لباس پوشاک، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری کرے، اور بیویوں کے ان حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے،  لہٰذا اگر سائل ان چیزوں میں برابری کی استطاعت رکھتا ہو ،تو اس کو دوسری شادی کی اجازت ہے، ورنہ نہیں۔

نیز   دوسری  شادی کے بعد ضروری ہوگا کہ   ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے، (البتہ دن کا وقت گزارنے میں برابری کا شوہر پابند نہیں، بہرحال  اگر دن میں ایک بیوی  کی خبر گیری کے لیے جائے تو دوسری کے پاس بھی چلا جائے، چاہے کچھ دیر  کے لیے ہو)  ۔اسی طرح  ایک بیوی کو جتنا نان و نفقہ و دیگر  ضروریات کا سامان  چھوٹی بڑی تمام اَشیاء ،تحفہ تحائف  وغیرہ دے  اتنا ہی دوسری بیوی  کو بھی دے ۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں اگر دوسری بیوی  شادی کے بعد  اپنے  لیے الگ مکان کا مطالبہ کرتی ہے، تو اگر  سائل نے پہلی بیوی کو بھی ایسا ہی مکان  دے  رکھا ہے تو  دوسری بیوی کو بھی شادی کر لینے کے بعد  الگ مکان دینا ہوگا۔

اس لیے کہ  جو شخص اپنی بیویوں  کے درمیان برابری نہیں کرتا تو ایسے شخص کے لیے سخت وعیدات بزبانِ نبی آخر الزماں وارد ہوئی ہیں، جب کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے والے مردوں کے حق میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارتیں دی ہیں۔

"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط". رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي."

(مشكاة، باب القسم: الفصل الثاني، ٢/ ٢٨٠، ط: قديمي)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔ 

دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو گیا تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔

"قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من كانت له إمرأتان فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة و شقه مائل أي مفلوج."

(مرقاة المفاتيح، ٦/ ٣٨٤، ط: رشيدية)

مسلم شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو... قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز و جل، و كلتا يديه يمين، الذين يعدلون في حكمهم و أهليهم و ما ولوا."

(كتاب الإمارة، باب فضيلة الإمام العادل)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ :  انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر رحمٰن کے دائیں جانب ہوں گے،  اور  اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی رعایا کے ساتھ اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب على الرجل نفقة إمرأته المسلمة و الذمية و الفقيرة و الغنية دخل بها أو لم يدخل ..." الخ

( الباب السابع عشر في النفقات، ١/ ٥٤٤، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"الكسوة واجبة عليه بالمعروف بقدر ما يصلح لها عادةً صيفاً و شتاء، كذا في التتارخانية ناقلاً عن الينابيع".

(مطلب في الكسوة، ١/ ٥٥٥)

و فيه أيضاً:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها..." الخ

( الفصل الثاني في السكني ١/ ٥٥٦)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 207):

"(ويقيم عند كل واحدة منهن يوماً وليلةً) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل، حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لايدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد، ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفي أو تموت، انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.

 (قوله: لكن إلخ) قال في الفتح: لانعلم خلافاً في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى، بل ذلك في البيتوتة، وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل، نهر (قوله: ولا يجامعها في غير نوبتها) أي ولو نهاراً ط". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 201):

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة، بل يستحب.

 (قوله: وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. ثم إن هذا معطوف على قوله: فيه، وضميره للقسم المراد به البيتوتة فقط؛ بقرينة العطف، وقد علمت أن العدل في كلامه بمعنى عدم الجور لابمعنى التسوية؛ فإنها لاتلزم في النفقة مطلقاً. قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي. والحق أنه على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة. وأما على القول المفتى به من اعتبار حالهما فلا؛ فإن إحداهما قد تكون غنيةً والأخرى فقيرةً، فلا يلزم التسوية بينهما مطلقاً في النفقة. اهـ. وبه ظهر أنه لا حاجة إلى ما ذكره المصنف في المنح من جعله ما في المتن مبنياً على اعتبار حاله (قوله: والصحبة) كان المناسب ذكره عقب قوله: في البيتوتة؛ لأن الصحبة أي المعاشرة والمؤانسة ثمرة البيتوتة. ففي الخانية: ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لايملكه وهو الحب والجماع".

(باب القسم بين الزوجات، كتاب النكاح، ط: سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں