اگر ایک باپ کے پانچ بچے ہوں اور چار بیٹوں کی شادی ایک گھر سے کروائے اور ایک بیٹے کی شادی اور گھر سے کروائے اور اتنے میں چار یا پانچ سال گزر جائیں، چار یا پانچ سال گزرنے کے بعد ان چار بیٹوں میں سے ایک بیٹا دوسری شادی کے لیے بولے، اس کی شادی پر ماں باپ راضی اور تین بیٹے ناراض ہوں ، اس پر شریعت کیا کہتی ہے؟ کس کی اطاعت کی جائے؟
واضح رہے کہ کہ دوسری شادی کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسری بیوی کا حق ادا کرسکے اوردونوں بیویوں میں اعتدال کرسکے،دوسری شادی کے لیے شرعا دیگر لوگوں کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے،تاہم بہتر ہے کہ پہلی بیوی اور والدین کو راضی کرکے فیصلہ کرے؛ تاکہ مستقبل میں پریشانی نہ ہو۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل". ( سنن أبي داود، كتاب النكاح، باب فى القسم بين النساء ۲/۲۹۷ ط:حقانية)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب مائل (مفلوج) ہوگی۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101886
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن