بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری بیوی اور اولاد کا نفقہ


سوال

میرے  شوہر نے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر مجھ سے دوسری شادی کی اور مجھے شادی کے دو ماہ بعد علم ہوا کہ شوہر پہلے سے شادی شدہ اور 5 بیٹوں کا باپ ہے۔اب میرے  ساتھ شادی کو  3سال ہونے والے ہیں،  مگر ابھی تک پہلی بیوی کو شادی کا نہیں بتایا گیا ۔ اب میری بیٹی ہے،  لیکن شوہر میری یا بیٹی کی بیماری میں بھی ہمارا خرچہ نہیں اٹھاتا،  سب کچھ بیٹوں کو دے دیتا ہے۔اپنے اور اپنی بیٹی کے  لیے میں کیا کروں؟اسلام کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں!

جواب

شریعتِ مطہرہ نے بیوی اور بچوں کا نفقہ شوہر کے ذمے  لازم رکھا ہے، اگر کوئی شوہر  اپنی بیوی اور بچوں کا نفقہ ادا نہیں کرتا تو گناہ گار ہو گا اور اس صورت میں بیوی کو یہ حق ہو گا کہ وہ اپنے نفقہ کی وصولی کے  لیے قانون کا سہارا لے اور شوہر سے اپنا حق وصول کرے۔

نیز شوہر کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر اس کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان میں برابری کرے، ان میں ہرگز  نا انصافی والا معاملہ نہ کرے،  بلکہ ایک سے زائد نکاح کی شریعت میں اجازت ہی اس صورت میں ہے جب کہ ان کے نان نفقے اور رہائش کا انتظام اور ان کے درمیان برابری کرنے پر قادر ہو، بصورتِ دیگر اس کی اجازت ہی نہیں ہے، اب  چوں کہ نکاح کرچکا ہے؛ لہٰذا دونوں بیویوں اور دونوں سے ہونے والی اولاد کے نان نفقے کی ادائیگی شوہر پر واجب ہے، اور دونوں بیویوں کے درمیان برابری  لازم ہے، ورنہ سخت گناہ گار ہو گا؛ حدیث شریف میں ہے جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب مفلوج ہوگی۔ اس  لیےشوہر کو  چاہیے کہ وہ اپنی دونوں بیویوں میں مکمل برابری کرے۔

اسی طرح زندگی میں اپنی اولاد کو ہدایا دینے یا نفقہ دینے  سے متعلق بھی شریعت کا حکم یہ ہے کہ اپنی اولاد میں برابری کرے، اگر کوئی والد کسی معتبر شرعی وجہ کے بغیر اپنی بعض اولاد کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دے، یا کسی کو محرورم رکھے تو یہ بھی گناہ کا کام ہے؛ لہٰذا  آپ اپنے شوہر کی کسی مستند عالم سے ملاقات کروائیں؛تا کہ وہ آپ کے شوہر کو تمام مسائل سے مطلع کریں،اور ان کو دونوں بیویوں اور تمام اولاد میں برابری کےمسائل سے آگاہ کریں۔

الفتاوى الهندية (1/ 544):

"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية، دخل بها أو لم يدخل، كبيرةً كانت المرأة أو صغيرةً، يجامع مثلها، كذا في فتاوى قاضي خان. سواء كانت حرةً أو مكاتبةً، كذا في الجوهرة النيرة".

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة». رواه ابن ماجه".

(مشكاة المصابيح (2/ 926) کتاب الفرائض، باب الوصایا، الفصل الثالث، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". (مشکوٰۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان بن بشیرؓ  کے بارے  منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں  رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں