بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے شہر میں کاروبار کیلئے جانے والا قصر کرے یا اتمام؟


سوال

میرا گھر فتح پور ضلع لیہ میں ہے جبکہ میرا کاروبار میرے گھر سے تقریباً 100 کلومیٹر دور ضلع جھنگ میں ہے، جہاں میں نے رہنے کے لئے کرایہ پر گھر اور کاروبار کے لئے کرایہ پر دکان لے رکھی ہے۔کاروبار کے لئے مجھے ایک ہفتہ ضلع جھنگ میں رکنا پڑتا ہے اور ہفتہ کے آخر پر یعنی جمعرات کو واپس اپنے گھر آنا ہوتا ہے، جہاں جمعہ کا دن گزار کر ہفتہ کی صبح پھر ضلع جھنگ جانا ہوتا ہے اور مستقل یہی ترتیب رہتی ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ ضلع جھنگ قیام کے دوران مجھے قصر نماز پڑھنا ہوگی یا مکمل نماز اور دوسرا یہ کہ ضلع لیہ سے ضلع جھنگ آتے جاتے ہوئے مجھے قصر نماز پڑھنا ہوگی یا مکمل نماز؟ مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں   آپ جب تک جھنگ  شہر پندرہ دن قیام کی نیت سے نہیں جائیں گے، شرعاًوہاں مسافر شمار ہوں گے اور  قصر نماز پڑھیں گے۔البتہ اگر آپ ایک دفعہ بھی جھنگ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرکے وہاں مقیم ہوگئے تھے تو جھنگ آپ کا وطنِ اقامت بن جائے گا، پھر جب تک کاروبارکے سلسلے میں وہاں آپ کا آنا جانا لگا رہے گا، اس وقت تک آپ جھنگ میں ہمیشہ پوری نماز پڑھیں گے، چاہے پندرہ دن سے کم دن کا قیام ہی کیوں نہ ہو۔

نیز  آتے جاتے ہوئے اپنے شہر کی آبادی کی حدود سے نکلنے کے بعد ، اسی طرح واپسی میں اپنے شہر کی حدود میں داخل ہونے تک نماز قصر پڑھیں گے۔

البحر الرائق میں ہے:

'' كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ۔۔۔ وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر''۔

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق،باب صلاۃ المسافر ،ج:۴/ ۱۱۲ ،ط:سعید )

بدائع الصنائع ميں ہے:

"الأوطان ثلاثة: وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها.(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يوما أو أكثر. (ووطن) السكنى: وهو أن يقصد الإنسان المقام في غير بلدته أقل من خمسة عشر يوما ۔۔۔ فالوطن الأصلي ينتقض بمثله لا غير وهو: أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا، حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصير صلاته أربعا، وأصله أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والمهاجرين من أصحابه - رضي الله عنهم - كانوا من أهل مكة وكان لهم بها أوطان أصلية، ثم لما هاجروا وتوطنوا بالمدينة وجعلوها دارا لأنفسهم انتقض وطنهم الأصلي بمكة، حتى كانوا إذا أتوا مكة يصلون صلاة المسافرين، حتى قال النبي - صلى الله عليه وسلم - حين صلى بهم: «أتموا يا أهل مكة صلاتكم فإنا قوم سفر» ؛ ولأن الشيء جاز أن ينسخ بمثله، ثم الوطن الأصلي يجوز أن يكون واحدا أو أكثر من ذلك بأن كان له أهل ودار في بلدتين أو أكثر ولم يكن من نية أهله الخروج منها، وإن كان هو ينتقل من أهل إلى أهل في السنة، حتى أنه لو خرج مسافرا من بلدة فيها أهله ودخل في أي بلدة من البلاد التي فيها أهله فيصير مقيما من غير نية الإقامة۔"

(كتاب الصلاة، فصل مایصیرالمسافر بہ مقیماً:ج،1:ص، 103:ط،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں