بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت اور نکاح کے گواہوں کا فون پر موجود ہونے کا حکم


سوال

1:میری ایک بہن ہے اس کو طلاق ہو چکی ہے،وہ دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہے،اس مرد کی پہلے سے ایک بیوی ہے،تو کیا اس مرد کو دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے یانہیں ؟

2:شادی میں لڑکے کے گواہ فون پر موجود ہوں گے کیا یہ درست ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص دوسری شادی کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ  بیویوں میں عدل وانصاف اور (نان ونفقہ اور شب باشی میں) برابری بھی کرسکتا ہے تو اس کے لیے  دوسری شادی کرنا جائز ہے،  دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت   لیناشرعاً ضروری نہیں ہے۔

تاہم مرد دوسری شادی سے پہلے اگر اپنی اہلیہ کو راضی کرلے تو بہتر ہے، تاکہ مستقبل میں ذہنی پریشانیوں سے محفوظ رہ سکے،  اور دوسری شادی کامقصدپوری طرح  حاصل ہو۔

 اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾." [النساء:3]

ترجمہ: اور  اگر  تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو  اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو  دو  دو عورتوں  سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو، یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔

( بیان القرآن )

2:نکاح کے درست ہونے کے لیے شرط ہےدو گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) مجلسِ نکاح میں موجود ہوں اور مجلسِ نکاح میں جانبین(میاں ،بیوی ) کے ایجاب و قبول کو سنیں، اگر لڑکا اور لڑکی تو مجلسِ نکاح میں ایجاب و قبول کریں، لیکن اس مجلس میں گواہ موجود نہ ہوں، بلکہ گواہ کسی دوسری جگہ پر ہوتے ہوئے فون کے ذریعہ ایجاب و قبول کو سنیں تو اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگا، اور یہ نکاح درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) شرط (حضور) شاهدين  (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معاً)  على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب، بحر"

(  کتاب النکاح،ج:3 ص:21،ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں