بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شہید کی بیوہ کا دوسرا نکاح


سوال

 شہید کی بیوہ  دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟

جواب

 شہید کی بیوہ  دوسرانکاح کر سکتی ہے؛ اس لیے کہ شہیدکو جو زندہ قرار دیا گیا ہے، اس  سے مراد   اخروی زندگی ہے ،دنیوی معاملات  مثلًا میراث،بیوہ کی شادی وغیرہ میں اس کے احکامات عام مسلمانوں کی طرح ہیں  ۔

{وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ}  [ سورہ آل عمران ۔ 169۔171 ]

ترجمہ: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو،  بلکہ وہ تو زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرب ہیں، کھاتے پیتے ہیں،  وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطا  فرمائی،  اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتےہیں؛ کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے، وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔ 

حدیث پاک  سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ  ان کی زندگی اخروی ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث  میں ہے:

"لمَّا قُتِلَ عبدُ اللَّهِ ابن عَمرِو بنِ حرامٍ يومَ أُحُدٍ قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ: يا جابرُ، ألا أخبرُكَ ما قالَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ لأبيكَ؟ قلتُ: بلَى، قالَ: ما كلَّمَ اللَّهُ أحدًا إلَّا من وراءِ حجابٍ، وَكَلَّمَ أباكَ كِفاحًا فقالَ: يا عَبدي تمنَّ عليَّ أُعْطِكَ قالَ: يا ربِّ، تُحييني فأُقتَلُ فيكَ ثانيةً قالَ: إنَّهُ سبقَ منِّي أنَّهم إليها لا يرجِعونَ قالَ: يا ربِّ، فأبلِغْ مَن ورائي، فأنزلَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ هذِهِ الآيةَ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا الآيةَ كلَّها." (ابن ماجہ:2800)
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب جنگ احد میں (ان کے والد) عبداللہ بن عمر و بن حرام رضی اللہ عنہ قتل کردیے گئے تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جا بر! اللہ تعالی نے تمہارے والد سے جو فرمایا ہے کیا میں تمہیں وہ نہ بتا ؤں؟"  میں نے کہا: کیوں نہیں! ضرور بتائیے، آپ  ﷺ نے  فرمایا:"اللہ تعالی نے سب سے پردہ کے پیچھے سے بات کی، لیکن تمہارے والد سے آمنے سامنے بات کی، اورکہا:اے میرے بندے !مجھ  سے  اپنی خو اہش کا اظہا ر کرو، میں تجھے عطا کر وں گا"،  انہوں نے کہا :اے میرے رب ! تو مجھے دو بارہ زندہ کر دے کہ میں دو بارہ تیرے راستے میں مارا جاؤں، اللہ تعالی نے فرمایا: اس با ت کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لو ٹا یا نہیں جا ئے گا، انہوں نے کہا : اے میرے رب! میرے پس ما ندگان کو( میر احال ) پہنچادے، تو یہ آیت نا زل ہوئی: {وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا } (سورۃ آل عمران: ۱۶۹)  جولو گ اللہ کی راہ میں ما رے گئے انہیں تم مردہ مت سمجھو۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں