ہمارے ہاں ایک جناب جو تبلیغ کر تے ہیں اور مسجد میں اللہ کی بات اور تعلیم وغیر ہ کر تے ہیں ، ان کا دودھ کا کاروبار ہے اور وہ دودھ ویسے ہی پانی ملاکر بیچتے ہیں جیسے سب پانی ملا کر بیچتے ہیں ،تو کیا یہ چیز درست ہے ؟ انسان نماز ،قرآن ، تبلیغ بھی کرے اور ملاوٹ والا کام کر کے روزی کمائے ، پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ دودھ میں پانی کیو ں ملا تے ہیں خالص کیوں نہیں بیچتے ،سو روپے میں دودھ خریدا جائے تو اس میں بیس کا دودھ اور اسی روپے کا پانی ہو تا ہے ؟
واضح رہے کہ دودھ میں پانی ملانے سے متعلق اصولی بات یہ ہے کی: دودھ میں پانی ملاکر بیچنے کی ممانعت اُس وقت ہے جب کہ پانی ملے ہوئے دودھ کو خالص دودھ کہہ کر بیچا جائے اَگر گاہک کو پہلے ہی بتادیا جائے کہ اس میں پانی ملا ہوا ہے اور اُس کی اتنی قیمت ہے، اور گاہک اس کو بخوشی خریدے، تو شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اور اس طرح کے کاروبار میں کوئی حرج نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے بارے میں اگر معلوم ہے کہ وہ دودھ میں پانی ملا کر بیچتے ہیں اور خالص کہہ کر نہیں بیچتے بلکہ پانی ملانے کی وضاحت کر کے فروخت کرتے ہیں،تو اس صورت میں دھوکا دہی نہیں ہے لیکن اگر پانی ملے ہو ئے دودھ کو خالص کہہ کر بیچتے ہیں تو اس صورت میں یہ جھوٹ اور دھوکا ہے اور دھوکا دینا جائز نہیں، اسی طرح ملاوٹ کی وضاحت کیے بغیر خاموشی سے فروخت کرنا بھی دھوکا سے خالی نہیں،اور دھو کا دینے والے کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہم میں سے نہیں ہے جو دھوکا دے۔ بذل المجهود ميں هے :
"عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم مَرَّ بِرَجُلٍ يَبِيعُ طَعَامًا، فَسَأَلَهُ: "كَيْفَ تَبِيعُ؟، فَأَخْبَرَهُ، فَأُوحِىَ إِلَيْهِ: أَنْ أَدْخِلْ يَدَكَ فِيهِ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ مَبْلُولٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ".
(کتاب البیوع،باب فی النھی عن الغش،166/11،دراسات الإسلامية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100518
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن