میرا دودھ کا کاروبار ہے،جس کے بارے میں کچھ سوالات ہیں،جن کے جوابات شریعت کی روشنی میں مطلوب ہیں،تاکہ میں اپنا کاروبار شریعت کے مطابق چلا سکوں،اور میری اور میرے ملازموں کی درست راہ نمائی ہو جائے۔
1۔دودھ والے جانوروں کا جب بچہ پیدا ہوتا ہے،تو اس کو ماں سے الگ کیا جا سکتا ہے؟اور اُسے ماں کو دکھائے بغیر چاروں تھنوں سے دودھ نکال سکتے ہیں؟
2۔دودھ والے جانوروں کے بچوں کو ماں کے تھنوں سے دودھ دینا ضروری ہے؟یا کسی اور طریقے سے ماں کا یا کسی دوسرے جانور یا ڈبے کا دودھ دے سکتے ہیں؟
3۔ہمارے لیے ان کے بچوں کو تھنوں کے ذریعے کتنے عرصے تک دودھ پلانا ضروری ہے؟اور اس کی مقدار کتنی ہوگی؟
4۔موجودہ دور میں مشین کے ذریعے دودھ نکالا جاتا ہے،آیا اس طرح دودھ نکالنا جائز ہے؟اگر جانور مشین کی طرف خود راغب ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟
5۔پورایازیادہ دودھ نکالنے کے لیےجانور کو انجکشن لگانا جائز ہے؟اگر یہ انجکشن لمبے عرصے بعد جانوروں کو نقصان پہنچاتا ہو تو اس صورت میں لگانا جائز ہو گا یا نہیں؟
6۔بچے کے علاوہ مالک کے لیے جانور سے کتنا دودھ کتنے عرصے تک نکالنا جائز ہے؟
7۔جانور سے دودھ حاصل کرنے کے لیے اس کا بچہ پاس لانے کا کیا حکم ہے،جب کہ بچہ صرف پاس ہوتا ہے، دودھ نہیں پیتا؟
1۔صورتِ مسئولہ میں دودھ والے جانور سے اس کا بچہ بلا ضرورت الگ کرنا درست نہیں،البتہ ضرورت کی بنا پر الگ کرنے کی گنجائش ہوگی،نیز جانور کو اس کا بچہ دکھائے بغیر اس کا سارا دودھ نکالنا درست ہے،تاہم بچے کی خوراک کے لیے دوسرا انتظام کرنا ضروری ہوگا۔
2۔جانور کے بچوں کو ماں کے تھنوں سے دودھ دینا ضروری نہیں ہے،بلکہ اس کو دودھ یا جو بھی اس کی خوراک ہو،وہ وقت پر دینا ضروری ہے،تاکہ بھوک کی وجہ سے بچے کو تکلیف نہ ہو۔
3۔جب تک وہ کوئی دوسری خوراک استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوتے اس وقت تک دودھ دینا چاہیئے،جب دوسری خوراک شروع کرے تو پھر آہستہ آہستہ دودھ چھڑانا درست ہوگا،اس کے لیے کوئی خاص مقدار متعین نہیں ہے،البتہ ایک دو مرتبہ پلانے سے پلانے والے کو خود معلوم ہو جاتا ہے،کہ اس کے لیے کتنی مقدار کافی ہوتی ہے،اس مقدار سے اس کو دودھ دیا جائے،باقی بچہ بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ خوراک بھی زیادہ استعمال کرنے لگتا ہے۔
4۔اگر مشین سے جانور کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہوتو مشین کے ذریعے دودھ نکالنا درست ہوگا،البتہ اگر مشین جانور کے لیے تکلیف دہ ہو یا نقصان دہ ہو تو پھر اس کا استعمال مکروہ ہوگا،اگر چہ جانور اس کی طرف خود راغب کیوں نہ ہوتا ہو۔
5۔حکومت نے مذکورہ انجکشن پر سخت مضر صحت ہونے کی وجہ سے پابندی لگائی ہوئی ہے، لہذا مضر صحت ہونے اور ملکی قوانین میں ممنوع ہونے کی وجہ سے بھینسوں کو اس طرح کے انجکشن لگاناقانونا جرم ہےاور پکڑے جانے کی صورت میں بے عزتی اور ذلت کا اندیشہ بھی ہے، جب کہ شرعا اپنے آپ کو اس طرح ذلت کے مواقع میں دھکیلنا جائز نہیں ، اس لیے جانوروں کو انجکشن لگانے سے احتراز کرنا چاہیے۔
6۔مالک جانور سےجتنا دودھ نکال سکتا ہے،اس کے لیے جائز ہے،البتہ اگر جانور سے پورا پورا دودھ نکالنے کی وجہ سے جانور کو تکلیف یا نقصان پہنچتا ہو تو پھر پورا پورا نکالنا درست نہ ہوگا،اور جب تک جانور دودھ دیتا ہے اور اس کو نقصان یا تکلیف نہیں ہوتی ہے،اس وقت تک نکالنا درست ہے۔
7۔جانور سے دودھ نکالنے کے لیے کوئی بھی طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے،بشرط یہ کہ شرعاً یا قانوناً اس کی ممانعت نہ ہو،لہذامذکورہ صورت میں بچے کو ماں کے سامنے لاکر اس سے دودھ حاصل کرنا درست ہے۔
سنن ابی داود میں ہے :
"عن عبد الرحمن بن عبد الله عن أبيه، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فانطلق لحاجته، فرأينا حمرة معها فرخان، فأخذنا فرخيها، فجاءت الحمرة فجعلت تفرش، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "من فجع هذه بولدها؟ ردوا ولدها إليها". ورأى قرية نمل قد حرقناها، فقال: "من حرق هذه؟ " قلنا: نحن، قال: "إنه لا ينبغي أن يعذب بالنار إلا رب النار".
(أول كتاب الجهاد، باب في كراهية حرق العدو بالنار، ج:4، ص:309، ط:دار الرسالة العالمية)
ترجمہ:
"حضرت عبدالرحمٰن ابن عبداللہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ ہم لوگ رسولِ کریم ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھےجب ایک موقع پر آنحضرت ﷺ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک حمرہ(پرندا) کو دیکھا جس کے ساتھ دو بچے تھے، ہم نے ان دونوں بچوں کو پکڑ لیا،اس کے بعد حمرہ آئی اور اپنے بچوں کی گرفتاری پر احتجاج شروع کیا،جب نبی کریم ﷺ تشریف لے آئے،آپ ﷺ نےجب حمرہ کو اس طرح بیتاب دیکھا تو فرمایاکہ کس نے اس کے بچوں کو پکڑ کر اس کو مضطرب کر رکھا ہے؟اس کے بچے اس کو واپس کردو"۔
(مظاہر حق جدید، ج:3، ص:565، ط:دارالاشاعت کراچی)
سنن ابی داود میں ہے :
"عن عبد الله بن جعفر، قال: أردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم خلفه ذات يوم، فأسر إلي حديثا لا أحدث به أحدا من الناس، وكان أحب ما استتر به رسول الله صلى الله عليه وسلم لحاجته هدفا أو حائش نخل، قال: فدخل حائطا لرجل من الأنصار، فإذا جمل، فلما رأى النبي صلى الله عليه وسلم حن وذرفت عيناه، فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم فمسح ذفراه فسكت، فقال: "من رب هذا الجمل؟ لمن هذا الجمل؟ " فجاء فتى من الأنصار، فقال: لي يا رسول الله، قال:"أفلا تتقي الله في هذه البهيمة التي ملكك الله إياها، فإنه شكا إلي أنك تجيعه وتدئبه".
(أول كتاب الجهاد، باب ما يؤمر به من القيام على الدواب والبهائم، ج:4، ص:200، ط:دار الرسالة العالمية)
ترجمہ:
"حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسولِ کریم ﷺ نے ایک روز اپنے ہمراہ سوار کیااور آپ ﷺ نے آہستہ سے مجھے ایک بات ارشاد فرمائی جو میں کسی کو نہیں بتاؤں گااور رسولِ کریم ﷺ کو قضائے حاجت کے لئے چھپ جانے کے مقامات میں دو مقام زیادہ پسندیدہ تھے یا تو کوئی جگہ بلند ہو یا درختوں کا جھنڈ ہو۔ایک مرتبہ آپ ﷺ کسی انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے اس طرف سے ایک اونٹ آیا اور اس نے آپﷺ کو دیکھتے ہی رونا شروع کردیا اور اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو بہانا شروع کردئیے۔رسولِ کریم ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور آپ ﷺ نے (شفقت سے)اونٹ کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا وہ خاموش ہوگیا۔اس کے بعد آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کس کا اونٹ ہے؟انصار میں سے ایک نوجوان حاضر ہوا اور عرض کیایا رسول اللہ ﷺ یہ میرا اونٹ ہے۔آپﷺ نے فرمایا تم اس جانور کے بارے میں اللہ تعالی کا خوف نہیں کرتے کہ جس کا اللہ تعالی نے تم کو مالک بنایا۔اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو(زیادہ کام یا زیادہ بوجھ لاد کر)اس کو تھکا مارتے ہو۔"
(سنن ابی داؤد مترجم مع ترجمہ ومختصر شرح، ج:2، ص:353، ط:مکتبۃ العلم لاہور)
المعجم الكبير للطبراني میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل يحلب شاة، فقال: «أي فلان، إذا حلبت فأبق لولدها؛ فإنها من أبر الدواب."
(أبو عبد الرحمن الحبلي، عن عبد الله بن عمرو، ج:13، 48، ط:مكتبة ابن تيمية - القاهرة)
ترجمہ:
"حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو بھیڑ کا دودھ دھو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے فرمایا: اے فلاں! جب تم دودھ نکالو تو اِس کے بچے کے لئے بھی چھوڑ دوکیونکہ یہ جانوروں میں سب سے زیادہ فرمانبردار ہے۔"
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن سهل بن الحنظلية قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعير قد لحق ظهره ببطنه فقال: «اتقوا الله في هذه البهائم المعجمة فاركبوها صالحة واتركوها صالحة» ."
(كتاب النكاح، باب النفقات وحق المملوك، الفصل الثانی، ج:2، ص:1004، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)
ترجمہ:
"اور حضرت سہل ابن حنظلیہ کہتے ہیں کہ (ایک دن)رسولِ کریم ﷺ ایک اونٹ کے قریب گزرے تو دیکھا کہ (بھوک وپیاس کی شدت اور سواری وباربرداری کی زیادتی سے)اس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی آپ ﷺ نے فرمایا”ان بے زبان چوپایوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو،اور ان پر ایسی حالت میں سواری کرو،جب کہ وہ قوی اور سواری کے قابل ہوں اوران کو اس اچھی حالت میں چھوڑ دو کہ وہ تھکے نہ ہوں ۔“
(مظاہرِ حق جدید، ج:3، ص: 442، ط:دارالاشاعت کراچی)
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"(قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم ببعير، قد لحق) : بكسر الحاء أي لصق (ظهره ببطنه) أي من شدة الجوع والعطش (فقال: اتقوا الله في هذه البهائم المعجمة) : قال القاضي: المعجمة التي لا تقدر على النطق، فإنها لا تطيق أن تفصح عن حالها، وتتضرع إلى صاحبها من جوعها وعطشها، وفيه دليل على وجوب علف الدواب، وأن الحاكم يجبر المالك عليه اهـ. ولا دلالة على الإجبار، وتقدم دليل نفيه على مقتضى مذهبنا (فاركبوها صالحة) : أي قوية للركوب (واتركوها) : أي: عن الركوب قبل الإعياء (صالحة) أي ; لأن تركب بعد ذلك. قال الطيبي رحمه الله: فيه ترغيب إلى تعهدها أي تعهدها بالعلف لتكون مهيأة لائقة لما تريدون منها، فإن أردتم أن تركبوها فاركبوها وهى صالحة للركوب قوية على المشي، وإن أردتم أن تتركوها للأكل فتعدوها لتكون سمينة صالحة للأكل. (رواه أبو داود) : وروى أحمد وأبو يعلى في مسنده، والطبراني والحاكم عن معاذ بن أنس: " «اركبوا هذه الدواب سالمة، وابتدعوها سالمة، ولا تتخذوها كراسي لأحاديثكم في الطرق والأسواق، فرب مركوبة خير من راكبها، وأكثر ذكرا لله منه»".
(كتاب النكاح، باب النفقات وحق المملوك، الفصل الثانی، ج:6، ص:2204، ط:دار الفكر، بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607100281
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن