بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1446ھ 23 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

دودھ پلانے والی عورت کی چھاتی خشک ہوچکی ہو تو رضاعت کا حکم


سوال

میں اپنے بیٹے کا نکاح اپنی بھانجی کے ساتھ کروانا چاہ رہاہوں،تو ہمارے علاقے میں ایک مولوی ہے،وہ   میرے بہنوئی سے کہتا ہے کہ اس بچے نے اپنی دادی کا دودھ پیا ہے،حالاں کہ بڑی عمر ہونے کی وجہ سے دادی کے سینے میں دودھ نہیں تھا ،بلکہ سینہ اس وقت خالی تھا،میری والدہ  خود اقرار  کررہی ہیں کہ اس وقت میری(سائل کی) بیوی کہیں گئی تھی تو بچے کو چپ کرانے کے لئے میں نے بچے کو صرف سینہ پکڑوایا تھا،اور اس وقت سینے میں بالکل دودھ نہیں تھا،چوں کہ ہماری بہن نے تو اپنی ماں کا دودھ پیا ہے جو اس بچے کی دادی بنتی ہے،اس وقت والدہ نوجوان تھی اور سینے میں دودھ تھا،اب مولوی کہتا ہے کہ ہماری بہن اور میرا بیٹا یہ دونوں رضاعی بہن بھائی بن گئے ہیں،اس لئے میرے بیٹے کا نکاح بھانجی سے شرعا جائز نہیں ہے۔

تو جب بچے نے دودھ پیا ہی نہیں ہے اور سینہ خشک تھا ،تو کیا اس کے باوجود بھی حرمت رضاعت ثابت ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ  دودھ  پلاتے وقت دادی کی چھاتی خشک تھی،اور دادی خشک ہونے کا اقرار بھی  کررہی ہے تو صرف منہ میں چھاتی ڈالنے  سے سائل کے بیٹے اور بھانجی کے درمیان حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی او رسائل کے لیے  اپنے بیٹے کا نکاح اپنی بھانجی سے کرانا جائز ہوگا ۔

جیسا کہ البحرالرائق میں ہے:

"(قوله: هو مص الرضيع من ثدي الآدمية في وقت مخصوص) أي وصول اللبن من ثدي المرأة إلى جوف الصغير من فمه أو أنفه في مدة الرضاع الآتية"

(کتاب الرضاع، ج:3،ص :238، ط:دار الکتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويثبت به) ولو بين الحربيين بزازية (وإن قل) إن علم وصوله لجوفه من فمه أو أنفه لا غير، فلو التقم الحلمة ولم يدر أدخل اللبن في حلقه أم لا لم يحرم لأن في المانع شكا ولوالجية.(قوله فلو التقم إلخ) تفريع على التقييد بقوله إن علم. وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثدي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية. اهـ. ط. وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج :3، ص :212، ط :ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الرضاع يظهر بأحد أمرين: أحدهما الإقرار والثاني البينة، كذا في البدائع"

(کتاب الرضاع، ج :1،ص :347، ط:المطبعة الکبری، مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612100101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں