دودھ میں پانی ملا کر بیچنے والے کے ساتھ قربانی ہو سکتی ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ دودھ میں پانی ملا کر بیچنا دھوکا ہے،ا ور دھوکا دینا سخت گناہ ہے جس سے شریعت نے سختی سے منع کیا ہے، اور اس طرح پانی ملانے سے جو کمائی ہوئی ہے تو پانی کے حصے کی کمائی کے بقدر رقم حلال نہیں ہے، اسے بغیر ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر دودھ بیچنے والے کے پاس اس پانی ملانے کی وجہ سے جس قدر حرام آمدنی حاصل ہوئی اس کے علاوہ دودھ کی فروخت سے حاصل ہونے والی حلال رقم موجود ہو تو وہ اسی حلال رقم سے قربانی کرے، اور اگر حلال رقم نہیں ہے، یا ہے لیکن کم ہے کہ نصاب کو پہنچتی ہی نہیں ہے تو اس پر قربانی لازم ہی نہیں ہے۔
اور اگر دودھ اور پانی ملا کر بیچنے کی وجہ سے دودھ اور پانی دونوں کی آمدنی اس طرح خلط ملط ہو گئی ہے کہ تمیز نہیں ہو سکتی تو پھر یہ دیکھا جائے کہ زیادہ رقم کون سی ہے،ا گر حلال (دودھ والی) آمدنی زیادہ ہے تو اس کا اعتبار ہوگا، اور اس کے ساتھ قربانی کرنا درست اور جائز ہوگا۔
اور اگر حرام (پانی والی) آمدنی زیادہ ہے یا دونوں برابر ہیں تو ان دونوں صورتوں میں حرام آمدنی کا اعتبار ہوگا یعنی (ان آخری دو صورتوں میں)اس کا قربانی کرنا یا اس کو قربانی میں شریک کرنا درست نہ ہوگا، اور اس کے ساتھ شریک ہونے والے کسی کی بھی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ولو خلط السلطان المال المغصوب بماله ملكه فتجب الزكاة فيه ويورث عنه) ؛ لأن الخلط استهلاك إذا لم يمكن تمييز عند أبي حنيفة، وقوله أرفق إذ قلما يخلو مال عن غصب وهذا إذا كان له مال غير ما استهلكه بالخلط منفصل عنه يوفي دينه وإلا فلا زكاة، كما لو كان الكل خبيثا كما في النهر عن الحواشي السعدية.
قوله: كما لو كان الكل خبيثا) في القنية لو كان الخبيث نصابا لا يلزمه الزكاة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه. اهـومثله في البزازية."
(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، 2/ 290، ط:سعید)
وفيه أيضا:
"وإن كان شريك الستة نصرانيا أو مريدا اللحم) (لم يجز عن واحد) منهم لأن الإراقة لا تتجزأ هداية لما مر.
قوله وإن كان شريك الستة نصرانيا إلخ) وكذا إذا كان عبدا أو مدبرا يريد الأضحية لأن نيته باطلة لأنه ليس من أهل هذه القربة فكان نصيبه لحما فمنع الجواز أصلا بدائع. [تنبيه] قد علم أن الشرط قصد القربة من الكل."
(کتاب الأضحية، 6/ 326، ط:سعید)
"بذل المجہود" ميں ہے:
"فإن قيل: صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء، فهذا القول منهم يخالف الحديث المذكور، فإن الحديث دال على حرمة التصدق بالمال الخبيث، وقد نص الله تعالى في كتابه: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ الآية، وقولهم بوجوب التصدق معارض بالحديث والآية، فما وجه التوفيق بينهما؟
قلنا: الآية والحديث يدلان على حرمة التصدق بالمال الحرام لأجل تحصيل الأجر والثواب، وقد أشير إليه في الحديث بقوله: "لا يقبل الله" فإذا تصدق بالمال الحرام يريد القبول والأجر يحرم عليه ذلك، وأما إذا كان عند رجل مال خبيث، فإما إن ملكه بعقد فاسد، أو حصل له بغير عقد، ولا يمكنه أن يردّه إلى مالكه، ويريد أن يدفع مظلمته عن نفسه، فليس له حيلة إلَّا أن يدفعه إلى الفقراء, لأنه لو أنفق على نفسه فقد استحكم ما ارتكبه من الفعل الحرام."
(کتاب الطهارۃ، باب فرض الوضوء، 1/ 359، تحت رقم الحدیث:59، ط:دار البشائر الإسلامية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."
(کتاب الکراھیة، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، 5/ 422، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144512100146
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن